بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

فیس بُک نے ’’ماہر‘‘ کا امتیازی نشان دینے کی تیاری کرلی

سلیکان ویلی: مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بُک نے جھوٹی اور غلط خبروں کی روک تھام کےلیے گروپ کی سطح پر ’’ماہر‘‘ (ایکسپرٹ) کے امتیازی نشانات (badges) دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

گزشتہ روز فیس بُک ایپ کی وائس پریزیڈنٹ کمیونٹیز، ماریا اسمتھ نے اپنی ایک پوسٹ میں اعلان کیا ہے کہ اب گروپ ایڈمنز اپنے کچھ خاص ارکان کو ’’ماہر‘‘ کے امتیازی نشانات دے کر انہیں علیحدہ سے شناخت کرسکیں گے۔

ماریا کا کہنا تھا کہ اس وقت فیس بُک گروپس میں سات کروڑ سے زیادہ ایڈمنز ہیں جبکہ بیشتر گروپ ممبرز کسی خاص شعبے کا وسیع علم رکھتے ہیں یا کسی میدان میں خصوصی مہارت کے علمبردار ہیں۔

’’ماہر‘‘ کے امتیازی نشان کا مقصد ان ہی گروپ ممبرز کو نمایاں شناخت دیتے ہوئے ’’ہجوم سے الگ کرنا‘‘ ہے تاکہ وہ بہتر طور پر دوسرے افراد کی رہنمائی کرسکیں۔

اس فیصلے کا مقصد فیس بُک گروپس سے غلط معلومات کا پھیلاؤ روکنا اور ایسے افراد کی نشاندہی کرنا ہے جو سوشل میڈیا صارفین کو کسی خاص موضوع کے بارے میں درست، مستند اور قابلِ بھروسہ معلومات فراہم کرسکیں۔

تاہم اگر کوئی ماہر اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین کو گمراہ کرے گا یا اپنی پوسٹس اور کمنٹس کے ذریعے ان تک غلط معلومات پہنچائے گا تو گروپ ایڈمنسٹریٹر کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ اس سے ماہر کا امتیازی نشان واپس لے سکے۔

بتاتے چلیں کہ فیس بُک گروپس میں پہلے ہی مختلف قسم کے امتیازی نشانات موجود ہیں جن میں سے بیشتر کسی گروپ ممبر کو خودبخود مل جاتے ہیں۔

ان امتیازی نشانات میں فاؤنڈنگ (بانی) ممبر، گروپ ایڈمن، گروپ ماڈریٹر، نیو ممبر، رائزنگ اسٹار، کنورسیشن اسٹارٹر، کنورسیشن بوسٹر، گریٹر، وژول اسٹوری ٹیلر اور لنک کیوریٹر شامل ہیں۔

واضح رہے کہ غلط معلومات کے عالمی پھیلاؤ میں سوشل میڈیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ یہ غلط معلومات انتخابی نتائج تک پر اثر انداز ہوتی دیکھی گئی ہیں جبکہ گمراہ کن معلومات کی روک تھام نہ کرنے پر فیس بُک کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔

پچھلے سال اکتوبر میں حقوقِ انسانی کے ایک آن لائن گروپ ’’آواز‘‘ نے کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فیس بُک انتظامیہ مارچ 2020 میں ہی مناسب اور فیصلہ کن اقدامات کرلیتی تو اکتوبر کے امریکی انتخابات سے متعلق جھوٹی پوسٹس کو دیکھنے والوں کی تعداد 10 ارب سے زیادہ ہر گز نہ ہوتی۔

You might also like

Comments are closed.