فوجی بغاوت جس پر فجی کے وزیر اعظم کو 36 برس بعد انڈین نژاد شہریوں سے معافی مانگنی پڑی
رابوکا کی یہ تصویرہ 24 مئی سنہ 1987 کو لی گئی تھی
- مصنف, شبھم کشور
- عہدہ, بی بی سی نیوز
فجی کے وزیر اعظم سیتیوینی رابوکا نے کہا ہے کہ انھوں نے سنہ 1987 میں انڈین نژاد لوگوں کے اکثریتی وزیرِاعظم کا تختہ الٹنا درست قدم نہیں تھا۔
اس وقت انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’انڈیا سے گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد وہاں کے مقامی باشندوں سے زیادہ ہو گئی ہے اور اپنے ملک پر فجی کے لوگوں کا کنٹرول کمزور ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں لکھا: ’اپنی طرف سے اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو میرے ساتھ تھے، میں 14 مئی سنہ 1987 کو ہونے والی فوجی بغاوت کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ بطور خاص انڈو-فجی باشندوں کو تکلیف پہنچانے کی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔‘
14 مئی کو اس واقعے کے 36 سال مکمل ہونے پر انھوں نے کہا کہ ‘ہم ان لوگوں کو قصور وار نہیں ٹھہراتے جو ہم سے ناراض ہیں یا نفرت کرتے ہیں۔ میں یہاں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں اور عوام سے معافی کا طلبگار ہوں۔’
1987 میں انڈین نژاد لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟
اس حوالے سے سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ فجی تک کیسے پہنچے۔ بحر الکاہل میں واقع فجی 1874 میں برطانیہ کی کالونی بن گیا تھا۔
سنہ 1879 اور 1916 کے درمیان ہندوستان سے 60 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے فجی لے جایا گیا تھا۔
سنہ 1916 میں برطانوی حکومت نے ہندوستان سے لوگوں کو لانا بند کر دیا اور 1920 میں مزدوروں کے ساتھ انڈینچرڈ لیبر ایگریمنٹ یعنی ایک طرح کے غلامی والے معاہدے کو ختم کر دیا گیا۔
بہرحال سنہ 1970 میں فجی آزاد ہو گیا اور راتو سر کامیسی مارا پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
1987 میں انڈین نژاد لوگوں کی اکثریت والی حکومت برسراقتدار آئی۔ اس وقت انڈین نژاد لوگوں یعنی فجی-انڈین نسل کی آبادی وہاں کے مقامی لوگوں کی آبادی سے زیادہ تھی۔
انڈین باشندوں کی نقل مکانی
اسی دوران لیفٹیننٹ کرنل سیتیوینی رابوکا نے بغیر خون ریزی کی بغاوت میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
انھوں نے کہا کہ فجی کے لوگوں کا سیاست میں زیادہ اثر و رسوخ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ایک اور سیاسی قدم اٹھاتے ہوئے انھوں نے فجی کو جمہوریہ قرار دیا۔
اس فوجی تختہ الٹ کے بعد بڑی تعداد میں انڈینز فجی سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔
تیس نومبر سنہ 1987 کی انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ ’فجی میں حیران کن بات یہ ہے کہ اکثریتی انڈین برادری کی جانب سے احتجاج کی سیاست کا مکمل فقدان ہے۔
’ساڑھے تین لاکھ انڈینز کی آبادی والے اس ملک سے بہت سے لوگ جا رہے ہیں، بہت سے لوگ اسے اپنی قسمت کا المیہ تصور کر رہے ہیں۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح ملک میں پاسپورٹ کی درخواستوں کا سیلاب آگیا ہے اور ایک دن میں 250 درخواستوں میں سے 230 انڈینز کی درخواستیں ہیں۔
رابوکا اب اس بغاوت اور ان لوگوں پر ہونے والے مظالم پر معافی مانگ رہے ہیں۔
فجی کے وزیر اعظم رابوکا نے سنہ 1987 کی فوجی بغاوت کے لیے معافی مانگی ہے
1987 کے بعد بھی بغاوتیں ہوئیں
رابوکا کی بغاوت کے بعد بھی فجی میں دو اور بغاوتیں ہوئیں۔
سنہ 1999 میں، مہندر چودھری فجی کے پہلے انڈین نژاد وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
لیکن ایک سال بعد ہی انھیں دیوالیہ تاجر جارج سپائٹ اور ریٹائرڈ آرمی چیف ایلیسونی لیگیری نے اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ اس بار بھی مقصد مقامی باشندوں کو اہم سیاسی قوت بنانا تھا۔
اس کے بعد سنہ 2006 میں ایک اور بغاوت ہوئی۔ اس بار اسے انجام دینے والے آرمی چیف فرینک بینی مراما نے حکومت پر بدعنوان ہونے اور 2000 سے پہلے والی بغاوت میں شامل لوگوں پر نرم رویے کا الزام لگایا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق رابوکا نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کسی کو بغاوت پر فخر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ ہیرو نہیں بن جاتے، اس لیے اس کی نقل کرنے والوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ ہیرو بن جائيں گے۔’
انھوں نے کہا: ‘آئیے ہم یہ سب کچھ پیچھے چھوڑ دیں اور اس بغاوت کے کلچر کو روکیں کیونکہ یہ ترقی اور فروغ میں مددگار نہیں ہے۔’
کب کب کیا ہوا؟
- 1874 – فجی تاج برطانیہ کے زیر اقتدار آیا
- 1879-1916 – انڈیا سے 60,000 کارکن درآمد کیے گئے
- 1970 – فجی آزاد ہوا
- 1987 – دو بار تختہ الٹا گیا
- 1999- مہندر چودھری نے الیکشن جیتا، پھر تختہ الٹ دیا گیا
یہ بیان فجی کے لیے کیوں اہم ہے؟
سیتیوینی رابوکا کو گذشتہ سال ایک ایسے ملک میں دوبارہ وزیر اعظم منتخب کیا گیا جہاں سنہ 1987 سے اب تک چار بار منتخب حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہے۔
ان کے اس بیان سے واضح ہے کہ اب ان کی کوشش ملک میں امن قائم کرنے اور اسے ترقی کی راہ پر لے جانے کی ہے۔
دہلی کی معروف یونیورسٹی جے این یو کے پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’رابوکا اس وقت جوان تھا جب اس نے بغاوت کی تھی، اب وہ بوڑھے اور تجربہ کار ہو چکے ہیں اور انھیں احساس ہے کہ اب ملک کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔‘
یہ انھیں وہاں رہنے والے انڈین نژاد لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیے
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلیکٹ ریزولوشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پریمانند مشرا کہتے ہیں کہ ’یہ معافی رابوکا کے لیے اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ انڈیا کے لیے تھی۔ یہ اس بات کو ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ وہ صرف فجی کے باشندوں کو نہیں بلکہ فجی کے انڈین نسل کے لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔‘
سورن سنگھ کہتے ہیں: ‘انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن 24 مئی کو پاپوا نیو گنی میں ملاقات کریں گے۔ میرے خیال میں اس بیان کا وقت اس لیے اہم ہے۔’
دونوں 22 مئی کو فورم فار انڈیا پیسیفک آئی لینڈز کوآپریشن سمٹ (انڈیا پیسفک سمٹ) میں شرکت کریں گے۔
فورم میں بحرالکاہل کے 14 جزائر شامل ہیں۔ ان میں جزائر کُک، فجی، کریباتی، مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا، ناورو، نیو، ساموا، سولومن جزائر، پالاؤ، پاپوا نیو گنی، ٹونگا، تووالو اور وانواتو آتے ہیں۔
تاہم اب خبر آئی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پاپوا نیو گنی کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ انھوں نے یہ دورہ امریکی قرضوں کے بحران کی وجہ سے منسوخ کر دیا ہے۔
رابوکا نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ یہ تصویر ڈالی جس میں انھوں نے عوام کو مخاطب کیا
چین کا جواب تلاش کرنے کی کوشش
چین، امریکہ اور انڈیا کے لیے فجی ایک اہم ملک ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں چین فجی سمیت کئی ممالک کے قریب آ گیا ہے۔ چین اس شعبے میں خاص طور پر قرضوں کی صورت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
امریکہ بھی زیادہ اثر و رسوخ اور چین کی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے فجی کے ساتھ میل جول کا خواہاں ہے۔
تاہم پریمانند مشرا کے مطابق رابوکا کے آنے کے بعد چین کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’چین کے پاس جنوبی بحرالکاہل کے سمندر میں اپنی ایک حکمت عملی ہے۔ وہ قرضوں سے مدد کرتا ہے، اس لیے چھوٹے جزیرے والے ممالک کو لگتا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات قدرے پُرخطر ہیں۔
’انڈیا کے ساتھ نظریاتی رشتہ ہے، عوام سے عوام کا رابطہ ہے۔‘
فروری میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر جب فجی پہنچے تو رابوکا نے واضح کیا کہ وہ انڈیا اور چین دونوں کے دوست ہیں اور یہ رشتہ جاری رہے گا۔
پریمانند مشرا نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ یہ چھوٹے ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہیں۔ ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) نے کہا ہے کہ وہ ان ممالک کی مدد کے لیے 100 ارب ڈالر کا پیکج تیار کر رہا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ اے ڈی بی میں امریکہ اور جاپان کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے۔‘
فجی کے وزیر اعظم رابوکا کی فوجی چیف کی حیثیت سے تصویر
انڈیا کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟
چین کے معاملے کو ایک طرف رکھیں تو انڈیا کا فجی سے براہ راست کوئی مفاد جڑا ہوا نہیں ہے لیکن بین الاقوامی تعلقات مستقبل کے حوالے سے بنائے جاتے ہیں۔
پریمانند مشرا کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کے نقطہ نظر سے صرف چین مخالف ہونا اہم نہیں ہے۔ فجی کے ساتھ انڈیا کے تاریخی تعلقات ہیں۔ انڈیا اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکتا ہے، وہاں کی فوجی تربیت بھی انڈیا میں ہوتی ہے، کلائمیٹ فنانسنگ میں انڈیا مدد کر سکتا ہے، انڈیا موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو اٹھانے میں بھی پیش پیش رہا ہے۔‘
اس لیے عین ممکن ہے کہ آنے والے سالوں میں انڈیا کو کسی مشکل وقت میں فجی سے مدد مل سکتی ہے۔
Comments are closed.