پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا۔
اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ ثاقب نثار اور فیض حمید اب بھی عمران خان کےلیے لابنگ کر رہے ہیں، ادارے اس صورتحال کا نوٹس لیں اور انہیں لگام ڈالیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا اسمبلیاں وزرائے اعلیٰ نے توڑی ہیں یا ایک لیڈر کے حکم پر عمل کیا گیا؟
انہوں نے پوچھا کہ کیا پولیس اور اداروں میں الیکشن میں سیکیورٹی دینے کی صلاحیت ہے؟ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتخابات کےلیے سازگار نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا کہ الیکشن شیڈول کیوں نہیں دیا جارہا، اس پر حیرت ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کاش 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر ایسا ہوتا، یہ کیسے کان ہیں جنہیں عوام کی آواز سنائی نہیں دی اور 4 لوگوں پر سوموٹو لے لیتے ہیں۔
پی ڈی ایم سربراہ نے یہ بھی کہا کہ غریب کو روٹی نہیں مل رہی، 80 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کا کہا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی صورتحال کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے، ہماری نظر میں تصویر اس سے بالکل مختلف ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کتنا حق مارا جائے گا ان لوگوں کا جو ووٹ کے اندراج کی طرف جارہے ہیں؟ مردم شماری ہو رہی ہے، کیا ایسے میں دو صوبوں کا الیکشن پرانی مردم شماری پر ہوگا؟
ان کا کہنا تھا کہ یہاں اسمبلیاں توڑی گئیں، دو اسمبلیاں اس وقت موجود نہیں ہیں، جو توڑی گئیں اُن کا وقت ایک نہیں اور انتخابی شیڈول بھی یکساں نہیں۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات اور دو صوبوں کے انتخابات پر مردم شماری کی نوعیت اور ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا کہ الیکشن شیڈول کیوں نہیں دیا جارہا؟ آئینی لحاظ سے یہ ٹھیک ہے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاست ہم اس طرح کریں گے؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عمران خان کی ساڑھے 3 سال کی حکومت نے ریاست کو کہاں پہنچادیا ہے، آج آئی ایم ایف ہمارا بجٹ بنا رہا ہے، قیمتیں کنٹرول کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے، ہم نے ملکی حالات کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہیں، ہم مقررہ وقت پر انتخاب کے انعقاد پر یقین رکھتے ہیں۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ حکومت پاکستان کی خواہش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں، ہم ان کے غلط مطالبات کو بھی جانتے ہیں۔
Comments are closed.