فرانس: صدر میکخواں نے پیرس میں 60 سال قبل الجزائری لوگوں کے قتلِ عام کو ’ناقابلِ معافی جرم‘ قرار دیا ہے
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے آج سے 60 سال قبل پیرس میں پولیس کی جانب سے الجزائری مظاہرین کے خلاف ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کو ‘ناقابلِ معافی جرم’ قرار دیا ہے۔
17 اکتوبر 1961 کو فرانسیسی پولیس نے الجزائر سے تعلق رکھنے والے مظاہرین پر تشدد کرتے ہوئے کچھ کو گولیاں مار دی تھیں تو کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
ہلاک شدگان میں سب سے کم عمر 15 سالہ فاطمہ بیضا تھیں۔
اُن کی لاش 31 اکتوبر کو دریائے سائن کے قریب ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔
متاثرین کی حقیقی تعداد تو واضح نہیں ہے تاہم کچھ لوگوں کے مطابق سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
صدر میکخواں اس روز ہلاک ہونے والے لوگوں کی یاد میں منعقد کی گئی تقریب میں شرکت کرنے والے پہلے فرانسیسی صدر ہیں۔
اُنھوں نے دریائے سائن پر قائم ایک پُل کے پاس یادگاری تقریب میں شرکت کی جہاں سے 1961 میں صرف الجزائری باشندوں کے خلاف رات کے کرفیو کے نفاذ کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
صدر میکخواں نے اس قتلِ عام کے 60 سال مکمل ہونے پر متاثرین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ‘جرائم’ پیرس پولیس کے بدنامِ زمانہ سربراہ موریس پاپون کی کمان میں ہوئے تھے۔ 80 کی دہائی میں معلوم ہوا تھا کہ پاپون نے دوسری عالمی جنگ کے دوران قابض نازی افواج کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے یہودیوں کو نازی ڈیتھ کیمپس میں پہنچایا تھا۔
صدر میکخواں کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ سنہ 1961 میں ہونے والے اس مارچ کو ‘ظالمانہ، پرتشدد اور خونی انداز’ میں کچلا گیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ 12 ہزار کے قریب الجزائری باشندے گرفتار ہوئے تھے، کئی زخمی اور درجنوں ہلاک ہوئے تھے۔
مگر وہ سماجی کارکنان جنھیں اُمید تھی کہ ذمہ داری زیادہ ٹھوس انداز میں قبول کی جائے گی، اُنھیں اس بیان سے مایوسی ہوئی ہے۔
نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم افریقہ 93 سے تعلق رکھنے والی میمونہ حاجم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کا بیان ‘پیش رفت تو ہے مگر مکمل نہیں۔ ہمیں اس سے زیادہ کی اُمید تھی۔’
اُنھوں نے کہا کہ ‘پاپون نے اکیلے یہ نہیں کیا تھا۔ لوگوں کو پیرس کے بیچوں بیچ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور اعلی سطح پر لوگوں کو یہ بات معلوم تھی۔’
میمونہ نے ‘ریاستی جرم’ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
تاریخ دان ایمانوئل بلینخارد نے کہا کہ صدر میکخواں کے تبصرے ‘پیش رفت’ کی علامت ہیں اور اُن کے پیش رو رہنماوں سے ‘کہیں آگے’ بڑھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
یہ قتلِ عام الجزائر میں فرانسیسی قبضے کے خلاف جنگ کے دوران ہوا تھا اور فرانسیسی حکومتوں نے کئی دہائیوں تک اس کی تردید کی یا اسے چھپایا۔
اس واقعے کی یادگاری تقریب پہلی مرتبہ سنہ 2001 میں اُس وقت کے پیرس کے میئر نے منعقد کی تھی۔
سنہ 2012 میں اس وقت کے صدر فرانسوا اولاند نے ہلاک شدگان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اُس روز الجزائر کے لوگ ‘بے رحمانہ جارحیت’ میں ہلاک ہوئے تھے۔
دریائے سائن کے کنارے پر کسی نے لکھا کہ ’ہم نے یہاں الجیریائی لوگوں کو ڈبویا تھا‘
اُس روز کیا ہوا تھا؟
شمالی افریقہ پر فرانسیسی قبضے کے خلاف جنگ شروع ہوئے سات برس ہو چکے تھے جب 30 ہزار الجزائری باشندوں نے کرفیو کے نفاذ کے خلاف پیرس کی سڑکوں پر پر امن احتجاج کیا۔
پانچ اکتوبر کو پیرس کے حکام نے تمام الجزائری باشندوں پر رات آٹھ بجے سے صبح ساڑھے پانچ بجے تک باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی تھی جس کے باعث کشیدگی پیدا ہوا تھا۔
پولیس نے سینکڑوں مظاہرین کو مار ڈالا جبکہ درجنوں کو دریائے سائن میں پھینک دیا گیا۔
یہ فرانس کی نوآبادیاتی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک ہے۔
اس وقت کی حکومت نے اس خبر کو سینسر کر دیا، آرکائیوز تباہ کر دیے اور صحافیوں کو اس واقعے پر تحقیق کرنے سے روک دیا تھا۔
اس دور کے نیوز بلیٹنز میں تین اموات کی خبر دی گئی جن میں سے ایک فرانسیسی شہری تھے۔
اسے بین الاقوامی پریس میں بھی جگہ نہیں ملی۔
پیرسیئن آرکائیوز کی ایک منتظم بریگیٹ لائینے نے سنہ 1999 میں کہا تھا کہ بچ جانے والی کچھ سرکاری دستاویزات سے اس قتلِ عام کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اُنھوں نے کہا: ‘بہت زیادہ لاشیں تھیں۔ کچھ کی کھوپڑیاں کچلی گئی تھیں تو کچھ پر گولیوں کے زخم تھے۔’
اب یہ مانا جاتا ہے کہ اس روز 200 سے 300 الجزائری باشندے قتل ہوئے تھے۔
اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں 110 لاشیں دریائے سائن کے کناروں تک پہنچیں۔
کچھ لوگوں کو مار کر دریا میں پھینک دیا گیا تھا جبکہ کچھ زخمیوں کو ہی ٹھنڈے پانی میں پھینک کر ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
17 اکتوبر کے بعد کئی دنوں تک الجزائری باشندوں کی تلاش جاری رہی اور پولیس پبلک ٹرانسپورٹ سے اور لوگوں کے گھروں سے گرفتاریاں کرتی رہی۔
یہاں تک اطلاعات سامنے آئیں کہ مراکشی باشندوں کو اپنے گھروں کے باہر ‘مراکشی’ کی تختی لگانی پڑی تاکہ پولیس اُنھیں الجزائر کا سمجھ کر ہراساں نہ کرے۔
اس کے علاوہ پرتگیزی، ہسپانوی اور اطالوی تارکینِ وطن کو بھی اپنے گھنگریالے بالوں اور گندمی رنگت کی وجہ سے مبینہ طور پر منظم انداز میں روک کر تلاشیاں لیے جانے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پولیس اُنھیں الجزائری سمجھنے لگتی تھی۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں صرف پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے ہی نہیں بلکہ فائر فائٹرز اور مشتعل افراد نے بھی حصہ لیا تھا۔
ہزاروں لوگوں کو غیر قانونی طور پر الجزائر واپس بھیج دیا گیا حالانکہ وہ فرانسیسی شہری تھے۔ الجزائر میں اُنھیں حراستی مراکز میں رکھا گیا۔
اس کے بعد اس وقت کے فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال الجزائر کے نیشنل لبریشن فرنٹ کے ساتھ جنگ کے خاتمے اور آزادی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔
پانچ ماہ بعد جنگ ختم ہو گئی اور جولائی 1962 میں الجزائر کو آزاد کر دیا گیا۔
Comments are closed.