آسٹریلیا میں ایک تمل خاندان کی کہانی: فرار کے دوران ملاقات، شادی، بچے، چار سالہ حراست اور پھر عارضی ویزا
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک تمل خاندان کو آسٹریلیا کے شہر کوئنز لینڈ میں واپسی کے لیے چار سال سے زیادہ طویل جنگ لڑنی پڑی ہے۔
آسٹریلیا کی نئی حکومت نے چار سال کے بعد اب مروگپپن کے خاندان کو ویزا جاری کیا ہے، جس کے تحت انھیں بلویلا شہر میں عارضی طور پر رہنے اور کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس سے قبل حکومت نے اس تمل خاندان کے سیاسی پناہ کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔ جس کے بعد (2018 سے) یہ خاندان مستقل طور پر امیگریشن حراستی مرکز میں رہ رہا تھا۔
آسٹریلیا میں اس معاملے پر مباحثہ نظر آیا جبکہ بلویلا کے مقامی لوگوں نے اس خاندان کی واپسی کے لیے مہم چلائی۔
متنازع پالیسیوں کے تحت آسٹریلیا مروگپپن جیسے پناہ کے متلاشی لوگوں کو غیر معینہ مدت تک حراستی مراکز میں رکھ سکتا ہے۔ حکومت کے مطابق اس دوران وہ کسی شخص یا خاندان کے پناہ حاصل کرنے کے جواز کا اندازہ لگاتی ہے یا انھیں واپس بھیجنے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔
لیکن آسٹریلیا کے نئے وزیر اعظم اینتھونی البانی نے کہا کہ ان کی حکومت مروگپپن خاندان کے معاملے کو ایک استثناء کے طور پر دیکھے گی، یعنی اس خاندان کے لیے قوانین میں نرمی کی جائے گی۔ اینتھونی البانی نے گذشتہ سنیچر کو انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
انھوں نے جمعے کو کہا: ’ہمارا معاشرہ اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں دوسروں کو پیغام دینے کے لیے لوگوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنی بڑی قیمت پر یہ معاملہ اتنے لمبے عرصے تک کیسے چلا گیا۔‘
مروگپپن خاندان کے حامیوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ خاندان کو عارضی ویزا کے بجائے مستقل ویزا دیا جائے۔
خاندانی دوست انجلی فریڈرکس نے جمعے کو ٹویٹ کی: ’اس کا بلویلا کا سفر ایک طویل تکلیف دہ باب کا اختتام اور زندگی میں تکلیف سے بتدریج رہائی کا آغاز ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ خاندان اس وقت تک محفوظ نہیں رہے گا جب تک انھیں آسٹریلیا میں مستقل طور پر رہائش کا مجاز نہیں قرار دیا جاتا۔
سری لنکا کے موروگپپن خاندان
کیا معاملہ ہے؟
پریا نادراجا اور نڈیسلنگم مروگپپن تقریباً ایک دہائی قبل الگ الگ کشتیوں میں آسٹریلیا پہنچے تھے اور یہاں کی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ انھیں اپنی تمل نسل کی وجہ سے سری لنکا میں ظلم و ستم کا اندیشہ ہے۔
دونوں بلویلا میں آباد ہوئے جہاں ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات شادی میں بدل گئی جس کے نتیجے میں دو لڑکیاں ہوئیں۔ بڑی لڑکی کا نام کوپیلا ہے جس کی عمر سات سال ہے اور چھوٹی لڑکی کا نام تھرنیکا ہے جس کی عمر چار سال ہے۔
مقامی طور پر اس خاندان کے لیے تحریک چلائی گئی
1500 سے زیادہ دن حراستی کیمپ میں
حکومت نے انھیں سنہ 2018 میں یہ کہتے ہوئے اپنی تحویل میں لے لیا تھا کہ خاندان کو آسٹریلیا میں رہنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔
بلوویلا میں مقامی لوگ اس خاندان کے حق میں کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے ایک مہم شروع کی جسے پورے ملک میں پذیرائی ملی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی اس مہم کی حمایت کی۔
خاندان نے اپنے سیاسی پناہ کے دعوے کی تصدیق کے لیے ایک طویل قانونی جنگ لڑی۔
یہ بھی پڑھیے
خاندان کو ملک بدر کرنے کے لیے دو بار کوششیں کی گئیں، لیکن سنہ 2019 میں ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ جب تک ان کا کیس حل نہیں ہو جاتا، انھیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔
اس خاندان نے 1500 سے زیادہ دن امیگریشن کے حراستی مرکز میں گزارے جہاں وہ دن کا بیشتر حصہ بحر ہند میں کرسمس جزیرے پر گزارتے۔
بلوویلا میں دونوں بہنیں اپنے گھر میں (بائیں) اور بعد میں کرسمس آئی لینڈ کے حراستی مرکز میں (دائیں)
گذشتہ سال مروگپپن کی بیٹی تھرنیکا کو طبی امداد کی اشد ضرورت تھی جس کے بعد خاندان کو کرسمس آئی لینڈ سے پرتھ کے کمیونٹی حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔
خاندان نے گذشتہ سال بی بی سی کو بتایا تھا کہ حراستی مرکز میں طویل عرصے تک رہنے اور اپنے لوگوں سے دوری کی وجہ سے انھیں کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پریا نے کہا تھا کہ برسوں کی حراست کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں اور ان کے پاس توانائی بہت کم رہ گئی ہے۔
تھرنیکا کی عمر صرف 9 ماہ تھی جب خاندان کو حراست میں لیا گیا۔ سنہ 2019 میں انھیں خراب کھانے کی وجہ سے بوسیدہ دانت نکالنے کے لیے سرجری کروانی پڑی۔ گذشتہ سال بھی تھرنیکا کو ایک اور بیماری کے باعث دو ہفتے ہسپتال میں گزارنے پڑے تھے۔
آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ مہاجرین سے متعلق اس کی سخت پالیسیاں انسانی سمگلنگ اور سمندر میں ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ نے ان پالیسیوں کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
Comments are closed.