دی ہیگ:عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کی طرف سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہو گیا۔
جنوبی افریقا کے پروفیسر جان ڈوگارڈ کی زیر قیادت قانون دانوں کا پینل کیس کی پیروی کررہا ہے جب کہ اسرائیلی فریق کی نمائندگی برطانوی قانون دان میلکم شاو کریں گے۔ عدالت میں فریقین کی موجودگی میں جاری کاروائی عوام کے لیے کھلی اور ٹی وی پر براہ راست نشر ہوئی۔
جنوبی افریقا کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے میں اسرائیل پر 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی گئی ہے۔یہ کنونشن تمام ممالک کو اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیتا ہے کہ ایسے جرائم کبھی نہ ہوں۔ جمعرات کو مقدمے کی ابتداعی سماعت میں جنوبی افریقا کے نمائندوں کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اس معاملے پر اپنے دلائل دیں۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف(آئی سی جے) میں اس کیس کی سماعت 2 روز تک جاری رہے گی اور جمعے کو اسرائیل کو بھی موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ اپنا موقف پیش کرے۔سماعت کے اختتام پر عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے پر عبوری حکم نامہ جاری کیا جائے یا نہیں۔
جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔
جمع کیے گئے شواہد کے مطابق اسرائیل کی کارروائیاں اور جو اقدام وہ کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں نسل کشی کرنے کی خصوصیت کی حامل ہیں کیونکہ ان کا مقصد فلسطینی قوم اور نسل کے ایک حصے کو تباہ کرنا ہے۔اس سے مراد اسرائیل کی فضائی بمباری جیسی کارروائیوں کے علاوہ وہ اقدام بھی ہیں جو وہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جیسے کہ عام شہریوں کو نقصان سے بچانا۔
مقدمے میں اسرائیلی بیانیہ بھی شامل ہے جس میں وزیراعظم نتن یاہو کے تبصرے بھی شامل ہیں اور ان کو نسل کشی کی نیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔جنوبی افریقا کی جانب سے دائر درخواست میں پیش کیے گئے دلائل کے مطابق، زیر بحث قتل و غارت گری کی کارروائیوں میں فلسطینیوں کو قتل کرنا، شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچانا، اور جان بوجھ کرایسے حالات پیدا کرنا شامل ہیں جن کا مقصد ایک گروہ کے طور پر ان کی جسمانی تباہی کو حاصل کرنا ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے عوامی بیانات ہیں جن میں تباہی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
Comments are closed.