سپریم کورٹ نے انٹر نیشنل اخبار، وال اسٹریٹ جرنل کے ساؤتھ ایشیا کیلئے انچارج امریکی باشندے ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزم عمر شیخ کی نظربندی کےحکم امتناع میں ایک دن کی توسیع کردی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمر شیخ کی نظر بندی کیس کی سماعت کی، عدالت نے سندھ ہائی کورٹ سے مقدمے کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو سنے بغیر رہائی کا فیصلہ دیا، اس طرح کے مقدمات میں وفاقی حکومت کا مؤقف لازمی ہوتا ہے، وفاقی حکومت کو سندھ ہائی کورٹ میں فریق بھی نہیں بنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی ملزمان کی رہائی کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کل تک حکومت کا مؤقف سن لیتے ہیں، حکومت بتائے ایک شہری کو کس طرح نظر بند رکھا جاسکتا ہے؟
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عمرشیخ کی جیل میں موجودہ حیثیت 24 گھنٹوں کیلئے برقرار ہے، عمرشیخ کو حراست میں رکھنے کا کوئی نیا حکم نامہ جاری نہ کیا جائے، ہم اس مقدمے کو سننا چاہتے ہیں، یہ ایک شہری کا معاملہ ہے۔
احمد عمرشیخ کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وکیل محمود اے شیخ علیل ہیں، مقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے کیلئے ملتوی کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 10 ماہ سے عمر شیخ غیرقانونی حراست میں ہے، اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہم جائزہ لیں گے عمرشیخ کو کیوں حراست میں رکھا گیا ہے، یہ سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔
وکیل نے بتایا کہ احمد عمر شیخ بے گناہ ہے، جو ڈینئل پرل قتل کیس میں ملوث تھے ان کو چھوڑ دیا گیا، امریکی دباؤ میں آکر غلط بندے کو پکڑا گیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ احمد عمر شیخ نے برطانیہ سے قانون کی ڈگری پاس کی، اگر وہ جیل میں نہ ہوتا تو مجھ سے اچھا وکیل ہوتا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ عمرشیخ کو حراست میں رکھنےکے حکم نامے میں کئی بار توسیع کی گئی، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمیں وجوہات بتائیں، عمرشیخ کو ابھی تک رہا کیوں نہیں کیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ عدالت کے ایک فیصلے کے تحت وفاق کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے، عمرشیخ کی رہائی کا فیصلہ معطل نہیں ہوا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی کے مقدمے کے عالمی اثرات ہوں گے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو فریق ہی نہیں ہیں، ہم نے تو مقدمہ عمرشیخ کے وکیل کو سننے کیلئے مقرر کیا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں عمرشیخ کی حراست کا حکم کب ختم ہوا؟ معاون وکیل عمرشیخ نے عدالت کو بتایا کہ یکم دسمبر کو حراست کا حکم ختم ہوگیا تھا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس کرنے یا نہ کرنے سے متعلق جائزہ لینے کیلئے آرڈر شیٹ کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
Comments are closed.