سوئزرلینڈ: پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گلیشیئر کے تیزی سے پگھلاؤ کی خبریں اب عام ہوچکی ہیں۔ اسی تناظر میں سوئزرلینڈ کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ایشیائی پہاڑوں پر سیلابوں کا خطرہ تین گنا بڑھ چکا ہے اور وجہ یہی ہے کہ برف کے ذخائر تیزی سے گھل رہے ہیں۔
تبت، ہمالیہ اورقراقرم کے بعض علاقوں میں گلیشیئر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کی وجہ سے یہ خطہ تیسرا قطب یا تھرڈ پول بھی کہلاتا ہے۔ قطبِ جنوبی و شمالی کے بعد برف کی سب سے بڑی مقدار اسی علاقے میں موجود ہے۔
اب چینی اور سوئس ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ عالمی تپش کی وجہ سے گلیشیئر پھٹ پڑنے اور ان سے پانی کے اخراج میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔ اس طرح اگلی چند دہائیوں میں ان علاقوں کے پہاڑوں پر سیلابی کیفیت میں تین گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف جنیوا کے ماہرین نے بڑے پیمانے پر حفاظتی اقدامات اور انفرااسٹرکچر پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ متاثر ہونے والے علاقوں میں ہمالیہ اور پامیر کے سیاسی طور پر حساس سرحدی علاقے بھی شامل ہیں۔ ان کی شدت اگلے تیس برسوں میں زیادہ دیکھی جاسکے گی۔
نیچر کلائمٹ چینج میں شائع اس رپورٹ کے مطابق گلیشیئر کا یک دم پھٹ پڑنا نہ صرف سرد پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ بنے گا۔ بلکہ گلیشیئر اپنے ساتھ مٹی اور درختوں کو بہا کر راستے کی آبادیوں اور بستیوں کے لیے ہول ناک مسئلہ بن سکتے ہیں۔ اس طرح سیلاب اگلے سیکڑوں کلومیٹر رقبے کو متاثر کرسکیں گے۔ تاہم چین، بھارت، بھوٹان اور نیپال میں گلیشیائی جھیل بننے اور نقصانات کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس صدی کے نصف یا اختتام تک 13000 گلیشیائی جھیلیں بن جائیں گی اور مسلسل پھیلتی رہیں گی۔ اگر یہ نشیب میں بنتی ہیں تو ان کا پانی ایک چھوٹے سونامی کا روپ دھارلے گا اور شدید نقصان کی وجہ بن سکتا ہے۔
اس خطے میں گیارہ ممالک آباد ہیں اور ان کے درمیان کئی طرح کے ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل اور تنازعے بھی جنم لے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں بطورِ خاص چین اور نیپال کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں تمام ممالک کو ابتدائی منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر کے اقدامات کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
Comments are closed.