بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

طالبان سے چھپتے افغان اساتذہ: ‘ہم گھروں میں ایسے بیٹھے ہیں جیسے جیل میں ہوں‘

افغانستان میں طالبان: خوفزدہ افغان اساتذہ آج بھی طالبان سے چھتے پھر رہے ہیں

  • کیرولین ہولے
  • بی بی سی نیوز

Taliban guard standing as women carry placards during a rally demanding the international community unfreeze the country's assets

،تصویر کا ذریعہEPA

افغانستان کے صوبہ ہلمند میں برطانوی اقدار کو پھیلانے اور انگریزی سیکھانے کے لیے جن افغانوں کو نوکریاں دی گئی تھیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اب بھی طالبان سے چھپتے ہیں اور ‘جوابی کارروائیوں سے خوفزدہ‘ ہیں۔

برٹش کونسل کا تقریباً 100 اراکین پر مشتمل سابق عملہ اب بھی افغانستان میں موجود ہے جنھیں اب تک برطانیہ آنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔

ان میں سے ایک نے بتایا کہ ‘ہم سب گھروں میں ایسے بیٹھے ہیں جیسے جیل میں ہوں۔‘ ایک اور سابق اہلکار نے کہا کہ اب ان کے پاس پیسے ختم ہو رہے ہیں۔

برطانوی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ایک نئی سکیم متعارف کروائی جائے گی جس کے تحت مزید ہزاروں افراد برطانیہ آئیں گے۔ ان اساتذہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی بحالی کی اس نئی سکیم کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

لیکن گذشتہ سال اگست میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے بہت سے لوگ چھپے ہوئے ہیں۔

برٹش کونسل، برطانیہ کا ایک سرکاری ادارہ ہے جو دنیا بھر میں ثقافتی اور تعلیمی روابط کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اب انھیں جس خطرے کا سامنا ہے وہ ‘شدید طور پر واضح‘ ہے۔

برٹش کونسل کے چیف ایگزیکٹیو سکاٹ میکڈونلڈ نے کہا ‘ہم جانتے ہیں کہ ہمارے سابق ساتھی تیزی سے بگڑتے مایوس کن حالات میں رہ رہے ہیں کیونکہ ملک میں حالات بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘

انھوں نے ان اساتذہ کو ‘افغانستان میں برطانیہ کا چہرہ‘ قرار دیا۔

‘ہمیں یہ کرنا پڑا‘

رحیم اللہ (فرضی نام) نے ‘انتہائی خطرناک‘ حالات میں برٹش کونسل کے لیے کام کرتے ہوئے دو سال ہلمند میں گزارے، جہاں برطانوی فوجی سنہ 2014 تک مقیم تھے۔

ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک، مقامی مخالفت کے باوجود سکول کے اساتذہ کو ‘مساوات، تنوع اور شمولیت‘ سکھانا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے پڑھے لکھے مرد اساتذہ نے بھی صنفی مساوات کو مسترد کر دیا تھا۔

افغان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمیں یہ کرنا تھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم جنس پرستوں کو ہماری افغان برادری میں قبول کیا جانا چاہیے لیکن انھوں نے اسے مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ میں ایک ایسا کام کر رہا ہوں جو مکمل طور پر اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔‘

رحیم اللہ چھپے ہوئے ہیں۔ وہ نوکری نہیں کر سکتے اور اپنے خاندان سے مل نہیں سکتے اور انھیں یقین ہے کہ اگر طالبان نے انھیں ڈھونڈ لیا تو انھیں مار دیا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں ‘میرے ایک رشتہ دار نے فیس بک پر طالبان کے خلاف پوسٹ کیا کہ وہ اساتذہ کی تنخواہیں ادا نہیں کر سکتے۔ اگلے دن، طالبان کے انٹیلیجنس والوں نے اسے اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا اور پھر اس کی لاش دریائے ہلمند میں پھینک دی۔ صرف ایک فیس بک پوسٹ کے لیے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔‘

ایک اور سابق استاد نے بی بی سی کو بتایا ‘ہم بہت افسردہ ہیں۔‘ ان کی ایک نوجوان بیٹی ہے جو بار بار ان سے گھر سے باہر جانے کی اجازت مانگتی ہے۔

مگر وہ کہتی ہیں ‘ہم چھپے ہوئے ہیں اور ہم باہر نہیں جا سکتے، ہمیں اپنے گھر کے اندر رہنا ہے۔ جب ہم سنتے ہیں کہ طالبان تلاشی کے لیے آ رہے ہیں تو ہم جگہ جگہ بھاگتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں فوج کی تعیناتی

ان اساتذہ کے سابق باس، جو سیٹن کا کہنا ہے کہ اساتذہ نے ان سے مدد کی بھیک مانگنی شروع کر دی ہے۔

افغانستان میں ساڑھے تین سال رہنے کے بعد جو سیٹن نے سنہ 2020 میں برٹش کونسل کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ ادارے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ تنظیم نے اساتذہ پر خرچے کے بجائے کابل میں دفتری عملے کو ترجیح دی۔ اس الزام کی برٹش کونسل تردید کرتی ہے۔

افغان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کا خیال ہے کہ اساتذہ کو ’اے آر اے پی‘ نامی حکومتی سکیم کے تحت برطانیہ آنے کا اہل ہونا چاہیے تھا۔ افغان ری لوکیشن اینڈ سسٹنس پالیسی انتقامی کارروائیوں کے خطرے میں مقامی طور پر ملازمت کرنے والے عملے کے لیے ترتیب دی گئی تھی لیکن اب انھیں ایک نئی سکیم کے تحت درخواست دینے کو کہا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘برطانیہ کی حکومت کی خارجہ پالیسی کا مقصد افغانستان میں پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا تھا اور انھوں نے جس پروگرام کے لیے کام کیا وہ مساوات، تنوع اور شمولیت کو مرکزی دھارے میں لا کر اس کو حل کر رہا تھا۔ اس کام کے لیے (یہ اساتذہ) برطانوی فوجی تھے۔‘

افغانستان سے انخلا کے انتظامات پر برطانوی دفتر خارجہ پر تنقید کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ہفتے، حکومت نے افغانستان کے شہریوں کی آباد کاری سکیم اے آر سی ایس کھولی ہے جس سے برطانیہ میں 20,000 لوگوں کو نئی زندگی کا موقع ملے گا، بشمول وہ برٹش کونسل کنٹریکٹرز جو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔‘

برٹش کونسل کا اصرار ہے کہ وہ کسی بھی فیصلہ سازی میں شامل نہیں ۔ تنظیم نے ایک بیان میں کہا ‘جب اے آر اے پی سکیم پہلی بار کھولی گئی، تو برطانیہ کی حکومت نے صرف برٹش کونسل کے ملازمین کی درخواستوں پر غور کیا۔‘

‘اس زمرے میں ہمارا دفتری عملہ شامل تھا لیکن ہمارے ٹھیکیدار نہیں (جس میں ہمارے اساتذہ شامل تھے)۔‘

تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ کی حکومت پر زور دے رہی ہے کہ وہ جلد از جلد ان کی درخواستوں پر غور کرے لیکن مہینوں چھپے رہنے کے بعد خود اساتذہ کے پاس امید کے ساتھ ساتھ وسائل بھی ختم ہو رہے ہیں۔ رحیم اللہ نے مزید کہا ‘مجھے یقین نہیں کہ میں یہ طویل عرصے تک کر سکتا ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.