پیر 3؍صفر المظفر 1445ھ21؍اگست 2023ء

صدر کے عہدے پر قبضے کی سازش کی جا رہی ہے، بیرسٹر سیف

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آ) کے رہنما بیرسٹر محمد علی سیف نے صدر مملکت کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کے عہدے پر قبضے کی سازش کی جا رہی ہے۔

ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ  قانون سازی کے لیے صدرِ مملکت کی منظوری ضروری ہے، صدر آرٹیکل 75(1) کے تحت بل کو منظور کیے بغیر واپس بھیج سکتے ہیں۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ بل واپس بھیجتے وقت کسی تحریری تبصرے یا رائے کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 75(1) کے تحت صرف پیغام دینا ہو گا کہ بل واپس کیا جا رہا ہے، بل مقررہ مدت کے بعد خودبخود قانون نہیں بن سکتا۔

انہوں نے کہا کہ خودبخود قانون بننا مشترکہ پارلیمانی منظوری کے بعد کا عمل ہے، صدر کی بل کی منظوری سے انکار کے بعد کسی مزید تحریری وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ ترامیم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی، دوبارہ پارلیمانی عمل سے گزارنا پڑے گا، سپریم کورٹ کو قانون سازی کے آئینی عمل کی پامالی کا نوٹس لینا چاہیے۔

صدر مملکت عار ف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کر دی۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ صدر کو اندھیرے میں رکھ کر قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن قانون کا مذاق ہے، یہ فوجداری قانون ہے جس کا اطلاق ماضی کے افعال و جرائم پر نہیں ہو سکتا، یہ دونوں ترامیمی قوانین انسانی حقوق سے متصادم ہونے کے باعث آرٹیکل 8 کے منافی ہیں۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکی ہیں، فیصلہ آنے تک قانون نہیں بن سکتا، اس قانون سازی کے پیچھے بدنیتی کار فرما ہے۔

وزارت قانون و انصاف نے صدر کے حالیہ ٹوئٹ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق کوئی بھی بل منظوری کے لیے صدر کو بھیجا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر (ایکس) پر جاری کیے گئے بیان میں صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کر تھی۔

صدر علوی نے کہا تھا کہ اللّٰہ گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔

انہوں نے کہا کہ میں ان بلز سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں، میں نے عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.