روس، یوکرین تنازع سے جڑے آٹھ اہم سوالوں کے جواب
- پال کربی
- بی بی سی نیوز
روسی صدر ولادیمیر پوتن مہینوں تک یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن جمعرات کو انھوں نے یوکرین کے ڈونباس خطے میں ’خصوصی فوجی کارروائی‘ کے آغاز کا اعلان کر دیا۔ روسی ٹی وی پر کارروائی کے اس اعلان کے بعد یوکرین کے دارالحکومت کیئو اور دیگر علاقوں سے دھماکوں اور ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
روس کی جانب سے یوکرین میں فوجی کارروائی کا قدم صدر پوتن کی جانب سے ’امن بحال رکھنے کی خاطر‘ یوکرین میں باغیوں کے زیرِ اثر دو مشرقی علاقوں میں فوج بھیجنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔
روس نے گذشتہ چند ماہ کے دوران یوکرین کی سرحدوں پر کم از کم دو لاکھ فوجی تعینات کیے تھے اور اب یوکرین پر روس کے تازہ حملے کے بعد یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ قدم یورپ کے سکیورٹی ڈھانچے کو تار تار کر سکتا ہے۔
روسی فوج کہاں اور کیوں بھیجی جا رہی ہے؟
جب سنہ 2014 میں روس نے یوکرین میں دراندازی کی تھی تو روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے مشرقی یوکرین میں بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس وقت سے وہ یوکرینی فوج سے برسرِپیکار ہیں۔
اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ جسے ’منسک امن معاہدہ‘ کہا جاتا ہے طے پایا لیکن یہ تنازع جاری رہا اور اب صدر پوتن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ دو خطوں کو بطور آزاد علاقے تسلیم کرنے کے بعد وہاں روسی دستے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز پر صدر پوتن نے یوکرین کے دو علاقوں لوہانسک اور ڈونیسک کو آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہاں امن قائم کرنے کے لیے افواج بھیجنے کی بات کی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے روس کی جانب سے ان دستوں کو ’امن فوج‘ قرار دینے کے روسی دعوے کو مسترد کیا ہے۔
مغربی ممالک کا خیال عرصہ دراز سے خیال تھا کہ روس چار کروڑ 40 لاکھ آبادی والے یوکرین پر ایک بڑے حملے کی تیاری میں ہے۔
مشرقی یوکرین میں داخل ہونے والے روسی دستے اُن دو لاکھ فوجیوں میں سے ہیں جو گذشتہ چند ماہ سے یوکرین کی سرحد پر جمع ہیں۔ یوکرین کی سرحد پر جمع فوجیں، ٹینکوں، توپ خانوں، جنگی جہازوں سے لیس ہیں اور انھیں بحریہ کی مدد بھی حاصل ہے۔
اطلاعات کے مطابق یوکرین کی سرحد کے قریب موجود افواج کو ایسی تمام سہولیات مہیا کر دی گئی ہیں جو حملے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ان سہولیات میں فیلڈ ہسپتال، مرمتی ورکشاپس، اور کیچڑ ہٹانے والی مشینری اور ساز و سامان شامل ہے۔
ولادیمیر پوتن کو یوکرین سے کیا مسئلہ ہے؟
روس ایک عرصے سے یوکرین کی یورپی تنظیموں جیسا کہ نیٹو اور یورپی یونین سے قربتوں کا مخالف رہا ہے۔ اب روسی صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین مغربی ممالک کی ’کٹھ پتلی‘ ہے اور یہ خطہ کبھی بھی ایک باقاعدہ ریاست نہیں تھا۔
انھوں نے مغربی ممالک اور یوکرین سے ضمانت طلب کی ہے کہ یوکرین 30 ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا اور ایک غیرجانبدار ریاست کے طور پر رہے گا۔
سابق سوویت ریاست ہونے کے ناتے یوکرین کے روس سے گہرے ثقافتی اور سماجی روابط ہیں اور وہاں روسی زبان عام بولی اور سمجھی جاتی ہے تاہم 2014 میں روس کے حملے کے بعد سے یہ تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔
روس نے 2014 میں یوکرین پر اس وقت حملہ کیا تھا جب وہاں کے روس نواز صدر کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا۔ مشرقی یوکرین میں اس کے بعد سے جاری تنازعے میں اب تک 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں کو روس کی جانب سے تسلیم کیا جانا خطرناک کیوں ہے؟
اب تک ڈونتسک اور لوہانسک کی نام نہاد جمہوریہ روسی گماشتے ہی چلا رہے تھے۔ روسی صدر کی جانب سے انھیں آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ان علاقوں میں روسی فوجی دستے تعینات ہیں اور وہ وہاں فوجی اڈے قائم کر سکتے ہیں۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں روزانہ کی بنیاد پر جنگ بندی کی سینکڑوں خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں، روسی فوج بھیجنے سے کھلی جنگ کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ منسک معاہدے کے تحت ان دونوں علاقوں کو یوکرین میں ایک خصوصی درجہ حاصل ہونا تھا لیکن صدر پوتن کے اقدام نے اس پر عملدرآمد ناممکن بنا دیا ہے۔
صورتحال جس وجہ سے زیادہ خراب ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈونستک اور لوہانسک کی یہ ’ریاستیں‘ صرف اپنے کنٹرول میں موجود محدود علاقے پر ہی اکتفا نہیں کر رہیں بلکہ ان کا دعویٰ ان دونوں خطوں کے مکمل علاقے پر ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ ’ہم انھیں تسلیم کرتے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ ہم ان کے قیام کی تمام دستاویزات کو تسلیم کرتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
روس نے پہلے ہی یوکرین پر مشرقی علاقوں میں ’نسل کشی‘ کے جھوٹے الزامات لگا کر جنگ کا میدان تیار کر لیا ہے۔ اس نے باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں میں سات لاکھ شہریوں کو روسی پاسپورٹ دیے ہیں اور وہ کسی بھی کارروائی کو اپنے شہریوں کا دفاع قرار دے سکتا ہے۔
روس اس تنازع میں کس حد تک جا سکتا ہے؟
ممکن ہے کہ روسی صدر مشرقی یوکرین میں ہونے والے منسک امن معاہدے کی خلاف ورزی پر ہی رک جائیں۔ روس کے صدر ماضی میں اہداف حاصل نہ ہونے کی صورت میں صرف فوجی تکنیکی حربے استعمال کرنے کی بات کرتے آئے ہیں جبکہ ماسکو نے یوکرین میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کی تردید کی تھی۔
تاہم اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ سفارتی حل کی کوششیں اب بارآور ثابت نہ ہو سکیں اور مغربی ممالک نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس مزید آگے جا سکتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ ’ہمیں یہ یقین ہے کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیئو کو ہدف بنائیں گے جہاں 28 لاکھ معصوم شہری بستے ہیں۔‘
ایسا لگ رہا ہے کہ روسی افواج مشرق، شمال اور جنوب کی طرف سے پورے یوکرین تک جنگ کا دائرہ وسیع کر دیں گی اور یوکرین کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیں گی۔
روس کریمیا، بیلا روس اور یوکرین کی مشرقی سرحدوں پر بھی فوجی دستے بھیج سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں روس نے بھی اپنی افواج کی استعداد اور صلاحتیوں کو بڑھایا ہے اور اب روس کو عوام کے غم و غصے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فوج نے 18 سے 60 سال تک اپنے تمام ریزرو فوجی بھی طلب کر لیے ہیں۔
امریکہ کے فوجی اہلکار مارک ملی نے کہا ہے کہ روس کی فوجی کارروائی سے یوکرین کے لیے خوفناک تنائج نکلیں گے اور بڑی آبادی والے شہر شدید متاثر ہوں گے۔
روس کے صدر کے پاس اور بھی آپشنز ہیں۔ ان میں سے ایک نوفلائی زون یا یوکرین کی بندرگاہوں کو بند کر دینا یا جوہری ہتھیار پڑوسی ملک بیلاروس منتقل کیے جا سکتے ہیں۔
صدر پوتن سائبر حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ رواں برس جنوری میں بھی یوکرین کی حکومت کی ویب سائٹس بند ہو گئی تھیں اور پھر فروری کے وسط میں یوکرین کے دو بڑے بینک بھی ایسے حملوں کا ہدف بنے۔
مغربی ممالک یوکرین کی خاطر کہاں تک جا سکتے ہیں؟
مغربی ممالک نے روس کے فوجی کشی جیسے اقدامات کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے یوکرین کی علاقائی خودمختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔
امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ یوکرین کو اپنے ’خودمختار علاقے‘ کے دفاع میں مدد کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ صدر بائیڈن نے یوکرین پر حملہ ہونے کی صورت میں ایسے اقدامات کرنے کی بات کی کہ ‘جیسے کسی نے کبھی نہیں دیکھے۔’
لیکن انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یکطرفہ طور پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی زیرِ غور نہیں۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ تنہا اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔ وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا نے کہا کہ ’ہم یہ جنگ خود لڑیں گے۔‘
لہٰذا اگر امریکہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت یا کسی اور چیز پر روس کی ’سرخ لکیروں‘ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو بھی اس کے ’مضبوط اقتصادی اور دیگر اقدامات‘ یوکرین کی مدد کے لیے کہاں تک جائیں گے؟
مغرب کے آپشنز میں سب سے بڑے ہتھیار یوکرین کی فوج کی حمایت کرنا اور روس پر پابندیاں لگتے ہیں۔ برطانیہ کے دفترِ خارجہ کے وزیر وکی فورڈ نے کہا ہے کہ برطانوی حکام دفاعی تعاون میں توسیع پر غور کر رہے ہیں۔
جہاں تک اقتصادی اقدامات کا تعلق ہے، سب سے بڑا ذریعہ روس کے بینکنگ نظام کو بین الاقوامی سوئفٹ ادائیگی کے نظام سے منقطع کرنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسے ہمیشہ آخری حربے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، لیکن لیٹویا نے کہا ہے کہ اس سے ماسکو کو ایک مضبوط پیغام جائے گا۔
ایک اور اہم خطرہ جرمنی میں روس کی نورڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن کے افتتاح کو روکنا ہے، اور اس گیس پائپ لائن کی منظوری فی الحال جرمنی کے انرجی ریگولیٹر کے ذریعے طے کی جا رہی ہے۔ جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے واضح کیا ہے کہ اگر روس کی طرف سے مزید کشیدگی پیدا کی جاتی ہے تو ’یہ گیس پائپ لائن سروس میں نہیں آ سکتی۔‘
روس کے خودمختار مالیاتی فنڈ آر ڈی آئی ایف کو بھی نشانہ بنانے والے اقدامات یا روبل کو غیر ملکی کرنسی میں تبدیل کرنے والے بینکوں پر پابندیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
امیر جمہوری ممالک کے جی 7 گروپ نے روس کو یوکرین کے خلاف مزید کارروائی کے جواب میں ’بڑے پیمانے پر نتائج اور بڑی قیمت‘ سے خبردار کیا ہے۔
روسی صدر پوتن کیا چاہتے ہیں؟
صدر پوتن نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ وہ یوکرین پر روس کی ’سرخ لکیریں‘ (ریڈ لائنز) عبور نہ کرے۔ تو وہ سرخ لکیریں کیا ہیں؟
ان میں سے ایک نیٹو کی مشرق میں مزید توسیع ہے، جس میں یوکرین اور جارجیا کے ممالک شامل ہیں۔
روس یہ بھی چاہتا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ پولینڈ اور ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوینیا سے اپنے لڑاکا دستوں کو نکالنا، اور پولینڈ اور رومانیہ جیسے ممالک میں میزائل نہ لگانا شامل ہیں۔
مختصراً روس یہ چاہتا ہے کہ نیٹو اپنی سنہ 1997 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس آ جائے۔ صدر پوتن کا کہنا ہے کہ روس کا مقصد خونریزی سے بچنا اور سفارتی راستہ تلاش کرنا ہے، لیکن اس قسم کا مطالبہ ناکام ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے۔
روس پہلے ہی یوکرین کی طرف سے مشرقی یوکرین میں روسی حمایت یافتہ افواج کے خلاف ترک ڈرونز کی تعیناتی اور بحیرہ اسود میں مغربی فوجی مشقوں سے پریشان ہے۔ صدر پوتن کی نظر میں یوکرین کے لیے امریکی فوجی مدد ’ہمارے گھر کی دہلیز پر‘ مداخلت ہے۔
جولائی 2021 میں، روسی صدر نے کریملن کی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع کیا، جس میں روسیوں اور یوکرینیوں کو ’ایک قوم‘ کہا اور یوکرین کے موجودہ رہنماؤں پر ’روس مخالف منصوبہ‘ چلانے کا لیبل لگایا۔
روس اس بات پر بھی مایوس ہے کہ 2015 کا منسک امن معاہدہ جس کا مقصد مشرقی یوکرین میں تنازع کو روکنا تھا، پورا ہونے سے بہت دور ہے۔ علیحدگی پسند علاقوں میں انتخابات کے لیے آزادانہ طور پر نگرانی کرنے والے اہلکاروں کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا۔ روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اس دیرینہ تنازع کی وجہ ہے۔
نیٹو کا یوکرین پر کیا مؤقف ہے؟
نیٹو کا مغربی فوجی اتحاد کہنے کو دفاعی ہے اور اس کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے واضح کیا ہے کہ کوئی بھی فوجی امداد خالصتاً اِن خطوط پر ہے۔
برطانیہ یوکرین کی بحیرہ اسود پر اوچاکیو اور بحیرہ ازوف پر برڈیانسک میں دو بحری اڈے بنانے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکہ کے ٹینک شکن جیولن میزائل بھی یوکرین بھیجے گئے ہیں اور امریکی کوسٹ گارڈ کی دو کشتیاں بھی یوکرین کی بحریہ کو دی گئی ہیں۔
جب کہ روس بضد ہے کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دے گا، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس اتحاد کی طرف سے واضح ٹائم لائن کی تلاش میں ہیں۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ’یہ یوکرین اور 30 [نیٹو] اتحادیوں پر منحصر ہے کہ یوکرین کب اتحاد میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ روس کو ’اس عمل میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
کیا اس معاملے کا کوئی سفارتی حل ممکن ہے؟
بظاہر اس کشیدگی کا وقتی طور پر سفارتی حل ممکن نہیں رہا۔ فرانس اور امریکہ نے روس کے وزیر خارجہ سے اپنے طے شدہ مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں۔ تاہم فرانس اور جرمنی نے یہ واضح کیا ہے کہ مذاکرات کے امکانات اب بھی کھلے ہیں۔
اور کوئی ممکنہ معاہدہ اب جنگ اور ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق ہو گا۔
امریکہ نے کم اور درمیانے درجے تک کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کو کم کرنے سے متعلق مذاکرات شروع کیے ہیں۔ اس معاہدے میں بین البراعظمی میزائلوں پر نئے معاہدے سے متعلق مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔
ماسکو ان میزائلوں کے باہمی معائنے سے متعلق مجوزہ ’ٹرانپرنسی میکانزم‘ سے متعلق مثبت رویے کا اظہار کرتا آیا ہے۔
Comments are closed.