بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

صدارتی ریفرنس: JUI کے وکیل پر عدالت برہم

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے وکیل جہانگیرجدون کی جانب سے امریکی عدلیہ کے فیصلے کا حوالہ دینے پر جسٹس اعجاز الاحسن برہم ہو گئے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے وکیل جہانگیرجدون کی جانب سے دلیل دیتے ہوئے امریکی عدالت کے 1871ء کےفیصلے کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ تو عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، عدالتی فیصلے سے پہلے متعلقہ قانون کا حوالہ دیا جاتا ہے، کیا ہم امریکی عدالتوں کے پابند ہیں؟

جہانگیر جدون نے کہا کہ ووٹر کا حق ہے کہ اس کا ووٹ کوئی نہ دیکھ سکے، دو چار لوگوں کی وجہ سے سب کے ووٹ اوپن نہیں ہو سکتے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو کرپشن کو روک سکتی ہیں، عدالت آرٹیکل 226 کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دے۔

جے یو آئی کے وکیل جہانگیر جدون کے دلائل مکمل ہونے پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 حکومتوں کے درمیان تنازع پر ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے، عدالت کو جائزہ لینا ہو گا کہ ریفرنس پر فوری جواب دینا لازمی ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ریفرنس آ چکا ہے، اس پر رائے ہر صورت دیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عدالت ریفرنس پر رائے دینے سے اجتناب کرے، عدالتی رائے سے سیاسی تنازع جنم لے سکتا ہے، اس لیے احتیاط کی جائے، سپریم کورٹ سے رائے تب لی جاتی ہے جب کوئی اور راستہ نہ بچا ہو۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حکومت اپنی سیاسی ذمے داریاں عدالت پر ڈال رہی ہے، اٹارنی جنرل کے دلائل آئین پر نہیں، بلکہ آئین کیا ہونا چاہیئے اس پر تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو صرف 3 سوالوں کا جواب دینا ہے، عدالت قرار دے گی کہ آئین کا آرٹیکل 226 سینیٹ الیکشن پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں، سینیٹ الیکشن میں متناسب نمائندگی کے ذریعے سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ ہوتا ہے یا نہیں، آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت تمام الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں یا نہیں، اس کے علاوہ تمام معاملات پر فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ووٹنگ کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا ہے یہ بھی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، کتنی سیکریسی ہونی چاہیئے یہ فیصلہ بھی پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اوپن بیلٹ کے متعلق ترمیمی بل پارلیمنٹ میں زیرِ التواء ہے،اٹارنی جنرل نے پیسوں سے بھرے بیگز اور ویڈیوز کا ذکر کیا جن پر عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت عدالت سے رائے طلب کرنے آئی لیکن کوئی رائے نہیں لی گئی، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز نے اوپن بیلٹ کے حق میں دلائل دیئے، نا کہ رائے مانگی، حکومت رائے لینے نہیں عدالت سے اوپن بیلٹ کی توثیق کرانے آئی ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.