’صحرا النقب‘ میں میوزک فیسٹیول پر حملے سے شروع ہونے والا حماس کا آپریشن: ’وہ پانچ گھنٹے کی ڈراؤنی فلم جیسا تھا‘
’صحرا النقب‘ میں میوزک فیسٹیول پر حملے سے شروع ہونے والا حماس کا آپریشن: ’وہ پانچ گھنٹے کی ڈراؤنی فلم جیسا تھا‘
اسرائیل میں تین ہزار شرکا کی پارٹی پر فائرنگ
- مصنف, فرانچیسکا جیلٹ اور ایلس کڈی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
جنوبی اسرائیل کے ایک صحرا میں منعقد ہونے والے ’سپر نووا فیسٹیول‘ کا اسرائیلی شہری گذشتہ کئی ہفتوں سے بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ اس فیسٹیول کو یہودی مذہبی تہوار ’سوکوت‘ کے موقع پر منعقد کیا جا رہا تھا۔
اس میوزک فیسٹیول سے قبل منتظمین نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’وقت آگیا ہے جب ہم پھر ایک ساتھ ہوں گے۔ بہت مزہ آنے والا ہے۔‘
تاہم گذشتہ سنیچر کے بعد سے اب والدین، رشتہ دار اور دوست احباب اپنے ان پیاروں کو ڈھونڈنے کی اپیلیں سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں جو اس میوزک فیسٹول میں شریک تھے۔
سنیچر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا اور ان کا پہلا اور بڑا ہدف یہی میوزک فیسٹول بنا تھا جس کی بہت سی ویڈیوز اب سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں۔ حماس نے اس میوزک اور ڈانس پارٹی پر دھاوا بولتے ہوئے وہاں گولیاں برسائیں۔
ریسکیو ایجنسی ’ذکا‘ کے مطابق تقریب کے مقام سے اب تک 260 سے زیادہ لاشیں مل چکی ہیں جبکہ حماس نے اس تقریب میں شریک چند افراد کو یرغمال بھی بنایا ہے۔
اس پارٹی میں شریک اورٹل بتاتی ہیں کہ انتباہی سائرن کا بجنا وہ پہلی علامت تھی کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ یہ سائرن حماس کے راکٹ حملوں کی وارننگ تھی۔
،تصویر کا ذریعہREUTERS
7 اکتوبر 2023 کو میوزک فیسٹیول پر حملے کے بعد شرکا جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں
تقریب کے عینی شاہدین نے کہا کہ راکٹ حملوں کے ساتھی ہی فائرنگ شروع ہو گئی۔ اورٹل نے اسرائیل کے ’چینل 12‘ کو بتایا کہ ’انھوں (حملہ آوروں) نے وہاں بجلی کاٹ دی اور اچانک وہ اپنی بندوقوں کے ساتھ اندر آ گئے۔ انھوں نے ہر طرف سے فائرنگ شروع کر دی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’وین میں سوار 50 حملہ آور فوجی لباس میں آئے تھے۔‘
’یہ اندھا دھند فائرنگ تھی۔ ہم ایسے لمحے پر آن پہنچے جب سب نے گاڑیاں روک دیں اور پیدل ہی بھاگنا شروع کر دیا۔ میں ایک درخت کے پاس پہنچی اور اس کی جھاڑیوں میں چھپ گئی۔۔۔ میں نے اردگرد بڑی تعداد میں لوگوں کو زخمی حالت میں دیکھا۔‘
کرپلس، جو فیسٹیول میں کام کر رہے تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے دیکھا کہ متعدد لوگوں کو گولیاں لگی ہیں۔ وہ خود ایک گاڑی میں اپنے دوستوں کے ساتھ فصلوں میں چھپ گئے۔ ’انھوں نے مختلف مقامات سے سنائپر رائفلز، اور بھاری بھرکم ہتھیاروں سے لوگوں پر گولیاں چلائیں۔‘
کرپلس ماضی میں اسرائیلی دفاعی فورسز کے لیے کام کرتے تھے۔ ان پر موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ گولی لگنے کے بعد وہ اور اُن کے دوست وہاں سے نکل گئے اور ایک قریبی عمارت میں چھپ گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے سنا کہ وہ (مسلح افراد) ایک دروازے سے دوسرے دروازے پر جا رہے تھے۔ کچھ گھنٹوں میں وہ ہمیں ڈھونڈ لیتے لیکن انھیں معلوم نہیں ہو سکا کہ ہم وہاں چھپے ہوئے ہیں۔‘
فیسٹیول کے مقام پر تباہ حال گاڑیوں کا منظر
بالآخر موقع پر اسرائیلی فوجی اور پولیس پہنچ گئی جس کے بعد کرپلس کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔
اس میوزک فیسٹیول کے مقام پر تین سٹیج لگے ہوئے تھے اور وہاں خیمے لگانے کی جگہ، شراب نوشی کے لیے بار اور فوڈ ایریا بھی تھا۔ یہ سب انتظامات کیبوتس رعيم کے قریب صحرائے نقب میں کیے گئے تھے۔
یہ مقام غزہ کی پٹی سے زیادہ دور نہیں جہاں سے حماس کے مسلح عسکریت پسندوں نے صبح سویرے حملے کا آغاز کیا۔ انھوں نے کئی علاقوں میں گھس کر لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔
ایستھر بروچوف نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ گاڑی چلا رہی تھیں جب ایک دوسری گاڑی نے انھیں ٹکر ماری۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان شخص اس گاڑی کو چلا رہا تھا جسے قریب سے گولی ماری گئی تھی۔
ایستھر کہتی ہیں کہ اسرائیلی فوج کے آنے تک وہ کسی لاش کی طرح زمین پر پڑی رہیں۔ ’میں اپنی ٹانگیں نہیں ہلا سکتی تھی۔ اس کے بعد فوجی آئے اور ہمیں ساتھ لے گئے۔‘
اورٹل جیسے شرکا کئی گھنٹوں تک قریبی جھاڑیوں اور فصلوں میں چھپے رہے اور انھیں امید تھی کہ فوج آ کر انھیں بچا لے گی۔ ’میں نے اپنا فون میوٹ پر لگا دیا اور فصلوں میں رینگنے لگی۔ اوپر آگ برس رہی تھی۔‘
گل یوسکووچ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ نارنجی کے باغات میں چھپ گئی تھیں۔ ’وہ ایک درخت سے دوسرے درخت تک جا کر فائرنگ کرتے تھے۔ میں نے دیکھا اردگرد لوگ مر رہے ہیں۔ میں چپ رہی۔ میں روئی نہیں، کچھ بھی نہ کیا۔‘
پھر تین گھنٹوں بعد انھیں اسرائیلی فوجیوں کی آواز آئی اور خود کو محفوظ کرنے کے لیے بھاگنے لگیں۔
ایک عینی شاہد نے کہا کہ یہ ’چار، پانچ گھنٹوں کی ڈراؤنی فلم تھی۔۔۔ ہم احمقوں کی طرح بھاگتے رہے۔ یہ پاگل پن تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہREUTERS
ریسکیو اہلکار یانیو نے کہا کہ ’یہ قتل عام جیسا تھا۔‘ انھیں اس حملے کے دوران فوری طور پر مدد کے لیے بلایا گیا تھا۔ انھوں نے سرکاری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ’میں نے زندگی میں کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا۔ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔‘
’جب لوگ ایمرجنسی میں نکلنے والے راستے سے باہر آئے تو حملہ آوروں کے گروہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے ان لوگوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’تقریب میں تین ہزار لوگ آئے تھے۔ انھیں شاید یہ پتا تھا۔ ان کے پاس انٹیلیجنس معلومات تھیں۔‘
اب صورتحال یہ ہے کہ متاثرین اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
لاپتہ افراد میں جرمن سیاح شانی لوک بھی شامل ہیں جن کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھیں حماس نے اغوا کر لیا ہے اور ساتھ لے گئے ہیں۔ 25 سالہ نووا ارگمانی کے خاندان نے بھی ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی ہے۔
نوا کے دوست امت پرپارا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ انھیں پیغامات بھیج رہے تھے جب وہ چھپی ہوئی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’صبح ساڑھے آٹھ بجے مجھے ان کا آخری پیغام موصول ہوا۔‘ امت نے بعد میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دیکھا کہ انھیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ’اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ موٹر سائیکل پر سوار ہیں اور انھیں ان کے بوائے فرینڈ سے دور غزہ لے جایا جا رہا ہے۔‘
اسی طرح ایک امریکی نژاد اسرائیلی خاندان اپنے 23 سالہ بیٹے کی تلاش میں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سنیچر کی صبح انھیں ان کی طرف سے دو پیغامات موصول ہوئے ’آئی لوو یو‘ اور ’آئی ایم سوری۔‘
Comments are closed.