زندگی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جس کی قدر کرکے اپنے معمولاتِ زندگی کو بہتر بنا کر اسے مزید خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں نظر آنے والی، جیسے موٹاپا محسوس کی جانے والی خامیاں، کمزوریاں اور صحت سے متعلق شکایات کا براہِ راست لائف اسٹائل سے تعلق ہوتا ہے۔
خوشگوار، صحت مند اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کردہ درج ذیل ٹپس پر عمل کر کے زندگی کو طویل، تندرست اور صحت بخش بنایا جا سکتا ہے۔
جنرل فیزیشنز کے مطابق ورزشیں ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہترین عناصر میں سے ایک ہے، اس سے توند کو جَلد کم کیا جا سکتا ہے، ماہرین کی جانب سے کم از کم روز کچھ دیر کی تیز چہل قدمی کو عادت میں شامل کر لینا تجویز کیا جاتا ہے، کچھ وقت چہل قدمی کرنے سے موٹاپے، کولیسٹرول یہاں تک کہ مایوسی وغیرہ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
فون چاہے آپ کے گھر والوں کا ہو یا کسی دوست وغیرہ، اسے سنتے ہوئے یہاں سے وہاں چہل قدمی کرنا ایک تیر سے دو شکار کے برابر ہے۔
دفاتر یا بلند و بالا اپارٹمنٹس میں مقیم افراد لفٹس کی بجائے سیڑھیوں کو ترجیح دے کر یہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، اس سے پسینہ آنے سے جسم کے فاسد بخارات نکل جائیں گے اور آپ فرحت محسوس کریں گے۔
رات کو گھر میں کھانے کے بعد ٹی وی کے سامنے اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ دیر باہر چہل قدمی کے لیے وقت نکالیں۔
دفاتر، شاپنگ سینٹر یا کسی بھی جگہ اپنی گاڑیاں کچھ دور پارک کریں تاکہ آپ کو زیادہ چلنے کا موقع مل سکے۔
اگر تمباکو نوشی کرتے ہیں تو غذا اور ورزش کی فکر چھوڑیں، پہلے اس عادت پر قابو پائیں، اسی طرح الکوحل بھی اگر زندگی کا حصہ ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیں کیونکہ جگر کے امراض کا سب سے بڑا سبب یہی عادت ہے۔
چالیس سال کی عمر کے بعد خواتین میں ہڈیوں کی کمزوری کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، ہلکے وزن کے ڈمبل کو ہفتے میں دو سے تین مرتبہ اٹھانے کی عادت اس کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ویٹ مشین، ڈمبل کی ورزشیں یا تیز چہل قدمی بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی برقرار رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ کیلشیئم کو جذب ہونے میں مدد دینے والا عنصر ہے لہٰذا ڈاکٹر کے مشورے سے وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ویسے تو ان مشروبات کا استعمال متعدد طبی عوارض کا خطرہ بڑھاتا ہے، روزانہ صرف ایک بار اس مشروب کو پینا کولہے کے فریکچر کا خطرہ خواتین میں 14 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ ممکنہ طور پر ان مشروبات میں موجود کیفین، فاسفورس یا چینی کیلشیئم کی سطح کو متاثر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اس سے بھرپور غذائیں جیسے مچھلی کو کھانا بھی عادت بنانا چاہیئے اور ہر ہفتے ایک سے دو بار مچھلی کھانا وٹامن ڈی کی فراہمی میں مدد دیتا ہے۔
پھلوں، سبزیوں، اجناس، گریاں، دودھ سے بنی اشیاء اور سی فوڈ وغیرہ وٹامنز اور منرلز سے بھرپور غذائیں ہیں جو ہڈیوں کی مضبوطی بہتر کرتی ہیں، جبکہ ان میں موجود فاسفورس، وٹامن کے، وٹامن بی سکس اور بی 12 کے ساتھ میگنیشئم بھی صحت کے لیے دیگر فوائد کا باعث بنتے ہیں۔
اس میں موجود حیوانی پروٹین کی بہت زیادہ مقدار گردوں کو متاثر کرتی ہے جو کیلشیئم کی سطح میں کمی کا باعث بنتا ہے، کیلشیئم کی کمی ہڈیوں کو کمزور کرتی ہے۔
بادام، کاجو اور مونگ پھلی وغیرہ میگنیشئم کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں، جو ہڈیوں کی ساخت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے، جبکہ یہ کیلشیئم جذب کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔
وٹامن ڈی کے حصول کا ایک اچھا ذریعہ سورج کی روشنی ہے تاہم وٹامن ڈی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کچھ دیر دھوپ میں بھی اپنے کام انجام دے۔
اگر آپ تیزی سے خوراک کو نگلتے ہیں تو یہ پیٹ کے پھولنے کا باعث بنتا ہے، کھانے کے صحیح آداب کا خیال رکھنا نہ صرف پیٹ کو صحیح شکل میں برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ دوست اور رشتے دار بھی خوش ہوتے ہیں۔
میٹھی اشیاءیقیناً لذیذ ہوتی ہیں مگر ان کا بہت زیادہ استعمال ہمارے جسم کے لیے کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ توند سے نجات چاہتے ہیں تو چینی سے دوری اختیار کرلینا بہترین حکمت عملی ہوتی ہے۔
آج کے طرز زندگی میں لوگوں کی نیند کا دورانیہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے جس کی قیمت مختلف بیماریوں کی شکل میں چکانا پڑتی ہے، جس میں سب سے نمایاں پیٹ کا نکلنا ہے، ایک رات صرف تیس منٹ کی کم نیند بھی وزن میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور یہ وزن توند کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔
اگر کچھ مشروبات کمر کو پھیلاتے ہیں تو ایک توند کو شرطیہ کم کرتا ہے اور وہ ہے پانی، یہ جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہے جس سے پیٹ نہیں پھولتا، جبکہ پانی کا زیادہ استعمال غذا کی اشتہا کو بھی کم کرتا ہے اور پیٹ بھی جلد بھر جاتا ہے۔
پھل جیسے بیریز، چیری، سیب اور مالٹے وغیرہ ایک قدرتی جز کیورسیٹن سے بھرپور ہوتے ہیں جو معدے کی سوجن کم کرتے ہیں، تو اگر آپ ان پھلوں کو اپنے گھر میں نمایاں جگہ پر رکھیں تو بے وقت بھوک پر آپ انہیں کھانے کو ترجیح دیں گے۔
اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور ٹیلیویژن آپ کے کمر کے حجم پر اثرات مرتب کرتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے استعمال کرتے ہوئے آپ بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے نتیجے میں جسمانی سرگرمیاں تھم جاتی ہیں اور کیلوریز جلتی نہیں۔ ان ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی جسمانی گھڑی پر اثرات مرتب کرتی ہیں اور نیند کی کمی کا مسئلہ سامنے آتا ہے جو توند نکلنے کا باعث بنتا ہے۔
کھانا کھاتے ہوئے ٹیلیویژن دیکھنا زیادہ خوراک جسم میں پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے جیسا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ دھیان نہ ہونے پر لوگ عام معمول سے زیادہ کھا لیتے ہیں اور جسمانی وزن میں کمی کی خواہش دم توڑ جاتی ہے۔
Comments are closed.