شی بائیڈن ملاقات: دو عالمی طاقتوں کے سربراہان کی ملاقات سے کیا امید لگائی جا سکتی ہے؟

XI

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, باربرا پلیٹ اشر
  • عہدہ, نامہ نگار برائے امریکہ وزارتِ خارجہ

دو سینیئر امریکی اہلکاروں نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے سان فرانسیسکو میں امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات ہونے والی ہے۔

15 نومبر کو دونوں صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات بائیڈن انتظامیہ کے دور میں دوسری ملاقات ہے۔

امریکی اہلکاروں نے بتایا کہ اس ملاقات میں متعدد موضوعات پر بات ہو گی جن میں اسرائیل-حماس جنگ، تائیوان، یوکرین میں جنگ اور انتخابات میں مداخلت شامل ہو گی۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سال کے ابتدا میں خراب ہوئے۔

امریکہ نے چین پر اس کی فضائی حدود میں جاسوس غبارہ بھیجنے کا الزام لگایا جسے ساؤتھ کیرولائنا کے ساحل کے قریب امریکی طیارے نے تباہ کر دیا تھا۔

اس کے علاثوہ گذشتہ سال سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا جس کی وجہ سے چین نے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان رابطے ختم کر دیے۔

امریکی اہلکاروں نے بتایا کہ امریکی صدر نے ان روابط کو بہال کرنے کا ’تہیہ‘ کر رکھا ہے لیکن چین ایسا کرنے سے ’ہچکچا‘ رہا ہے۔

ایک اہلکار نے کہا ’یہ پانچ یا دس سال پرانے تعلقات نہیں ہیں ہم نتائج کی لمبی فہرست کی بات نہیں کر رہے۔‘

’یہاں مقصد مقابلے کو مینیج کرنا اور تنازعے کے خطرے کو ختم کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ رابطے کھلے رہیں ہیں‘۔

بائیڈن اور شی کے درمیان ملاقات سان فرانسیسکو میں ہونے والی ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اےپیک) کے دوران ہو گی۔

تائیوان کا موضوع چین کے لیے سرفہرت موضوعات میں سے ہونے والا ہے۔ چین اس خودمختار جزیرے پر اپنے اختیار کا دعویٰ کرتا ہے اور ادھر اگلے سال الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔

انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق شی جن پنگ اضافی یقین دہانی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ تائیوان کی آزادی کی حمایت نہ کرے جبکہ مسٹر بائیڈن سے توقع ہے کہ وہ تائیوان کے ارد گرد بیجنگ کی فوجی سرگرمیوں کے بارے میں امریکی خدشات کو اجاگر کریں گے۔

چین کو ٹیکنالوجی کی برآمدات پر امریکی پابندیوں اور جنوبی چین اور مشرقی چین کے سمندروں میں بیجنگ کے علاقائی دعووں پر کشیدگی کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی۔

تجارت کے اوپر اختلافات کے علاوہ امریکی صدر کی چین سے فوری درخواست یہ ہو گی کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایران کو اسرائیل اور حماس کی جنگ کے ردعمل میں مشرق وسطی میں تشدد کو بڑھانے سے روکے۔

blinken Xi

،تصویر کا ذریعہReuters

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سمٹ کے نتیجے میں ہو سکتا ہے عسکری روابط کی بہالی اور چینی ساختہ فینٹنل کے بہاؤ میں کمی جیسی معمولی کامیابیاں مل سکتی ہیں۔

لیکن کوئی بھی فریق کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کر رہا جو تعلقات کو دوبارہ پہلے والی حالت میں لے جائے گا یہاں تعلقات کو قائم اور مستحکم رکھنا مقصد ہو گا۔

تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے جوڈ بلانشیٹ نے کہا کہ چینی تعلقات میں خرابی کا الزام واشنگٹن پر لگاتے ہیں۔ شی جن پنگ نے مارچ میں یہ بات واضح کی تھی جب انھوں نے امریکہ پر ’چین کو گھیرے میں لینے، اس پر قابو پانے اور دبانے کا الزام لگایا تھا۔‘

اور جب کہ چین کے امریکی سفیر شی فینگ نے حال ہی میں تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب مثبت اقدامات کی تعریف کی، انھوں نے یقین دہانیوں کی اہمیت پر زور دیا۔

انھوں نے ہانگ کانگ فورم میں کہا کہ چین یہ جاننا چاہتا ہے کہ ’امریکہ چین کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا، نئی سرد جنگ نہیں چاہتا، تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا‘

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ جارحانہ چینی رویے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

لیکن انھوں نے غبارے کے واقعے کے بعد تناؤ کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ جون سے کابینہ کے تین ارکان کو بیجنگ بھیجا گیا اور ان افراد میں سیکٹری خارجہ انٹونی بلنکن بھی شامل تھے۔

انٹونی بلنکن نے فروری میں اچانک اپنا دورہ یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ چین کا بظاہر جاسوس غبارہ امریکہ پر اڑانے کا فیصلہ ’ناقابل قبول اور غیر ذمہ دارانہ‘ تھا۔

XI and biden

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم یہ دورہ آخر کار جون میں طے پایا اور بلنکن کی ان کے مطابق صدر شی سے ’اہم امور پر بات چیت‘ ہوئی۔ اب ہونے والی سمٹ اسی سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔

امریکہ میں متعدد میڈیا اداروں کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ شی جن پنگ صدر بائیڈن سے ملاقات کے بعد سان فرانسسکو میں امریکی کاروباری شخصیات سے ایک خصوصی اعشائیے پر ملاقات کریں گے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر شی کی میز پر بیٹھنے کے لیے مہمانوں کو 40 ہزار ڈالر کی خطیر رقم دینا ہو گی۔ جب اس تقریب میں شمولیت کے لیے ٹکٹس کی قیمت دو ہزار ڈالر سے شروع ہو رہی ہے۔

قومی کمیٹی برائے امریکہ چین تعلقات کے ایک ترجمان اور اس اعشائیے کے منتظمین میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایک ’انتہائی سینیئر‘ چینی اہلکار کے ساتھ ایک تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے لیکن انھوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ یہ صدر شی ہوں گے یا نہیں۔

امریکی وزیرِ خزانہ جینیٹ ییلین نے رواں ہفتے کے دوران چینی نائب صدر ہی لائفینگ کے ساتھ بات چیت کی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعاون پر بات کی ہے۔

اس دورے سے قبل، چین کے ریاستی میڈیا ادارے گلوبل ٹائمز نے ایک اداریہ لکھا جس میں صدر بائیڈن پر چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں آنے والی ’رکاوٹوں کو ختم کرنے اور ان پر قابو پانے‘ کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔

آٹھ نومبر کو شائع ہونے والے اداریے میں کہا گیا ہے کہ ’واشنگٹن میں ایسی منفی قوتیں ہیں جو چین امریکہ تعلقات کی خراب کے لیے موجود ہے اور جتنی سنگین صورتحال ہوتی ہے یہ اتنی ہی سرگرم ہو جاتی ہے۔‘

اس تحریر کے لیے اضافی رپورٹنگ لندن سے رابرٹ پلمر اور واشنگٹن سے برینڈن ڈرینن نے کی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ