’شیطان کے زیرِ اثر‘ لڑکے کی کہانی جس سے متاثر ہو کر فلم ’دی ایکسوسسٹ‘ بنی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, رافیل ابوچھابے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے 20 اگست 1949 کو ایک خبر لگائی جس میں لکھا تھا ’حالیہ مذہبی تاریخ میں شاید اپنی نوعیت کے سب سے غیر معمولی واقعے میں واشنگٹن ڈی سی سے تقریباً 15 کلومیٹر دور ایک مضافاتی علاقے ماؤنٹ رینیئر میں ایک 14 سالہ لڑکے کو ایک کیتھولک پادری نے شیطان کے قبضے سے آزاد کرایا ہے۔‘
اخبار نے ’کیتھولک ذرائع‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان کو جِن کے قبضے سے چھڑانے کے لیے اسے ’20 سے 30 کے عملیات‘ سے گزرنا پڑا اور ہر بار جب پادری جنتر منتر پڑھتے ہوئے عمل کے عروج پر پہنچتا تو لڑکا ’لاطینی زبان میں چیخنا، گالم گلوچ کرتا اور فقرے کسنا شروع کر دیتا۔ یہ وہ زبان تھی جس کا اس لڑکے نے کبھی مطالعہ نہیں کیا تھا-‘
اس کے کچھ ہی عرصے بعد قریبی علاقے سے تعلق رکھنے والے ولیم پیٹر بلاٹی نامی ایک نوجوان نے پہلی بار اس کہانی کے بارے میں سنا۔ اس وقت وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
ولیم پیٹر بلاٹی نے اپنا ناول ’دی ایکسوسسٹ‘ لکھنے کے لیے واشنگٹن پوسٹ کی خبر کو بنیاد بنایا۔
سنہ 1971 میں بلاٹی پہلے سے ہی ایک مصنف اور فلم کے سکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انھوں نے ’دی پِنک پینتھر‘ جیسی کامیاب فلموں کے سکرپٹ بھی لکھ رکھے تھے۔ اس وقت انھوں نے اپنا ناول ’دی ایکسوسسٹ‘ شائع کیا۔ بعد ازاں اسی نام کی فلم کی بنیاد رکھی گئی جس نے فلم کی ایک نئی قسم کو جدید سنیما میں متعارف کروایا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ناول اور فلم کو ریلیز ہوئے 50 سال ہو گئے ہیں اور اس کی بے پناہ کامیابی کے باوجود اس نوجوان کی حقیقی شناخت اور تاریخ، جس کی کہانی سے متاثر ہو کر یہ ناول لکھا گیا، آج بھی گمنامی میں ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جسم پر خراشیں اور حرکت کرتی کرسیاں
1949 کی پریس رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 14 سالہ لڑکے کی شناخت رولینڈ ڈو کے نام سے ہوئی ہے (امریکہ میں ڈو ایک عام کنیت ہے جسے لوگوں کی شناخت ظاہر نہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے)۔ اس لڑکے نے اپنے کمرے کی دیواروں سے عجیب و غریب آوازیں سننا شروع کر دی تھیں اور اس کے چند دن بعد اس کے خاندان کے قریبی رکن کی موت ہو گئی تھی۔
میسوری کی سینٹ لوئس کیتھولک یونیورسٹی کے دستاویزات کے مطابق ’آنٹی ٹلی‘ اس لڑکے کے قریب تھیں۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہی تھی جنھوں نے اسے اوئیجا بورڈ سے متعارف کرایا۔ یہ ایک کھیل تھا جس کا تصور 19ویں صدی میں ہوا جب روحانیت ایک مذہبی رجحان بن گیا تھا۔
اس وقت کے پریس کے مطابق، خاندان کا خیال تھا کہ لڑکے کی اپنی خالہ سے اوئیجا بورڈ کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوششیں اس غیر فطری عمل کی وجہ بنی تھیں جن کا وہ سامنا کر رہے تھے: انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے خود ہی کرسیوں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، رولینڈ کا پلنگ بھی عجیب انداز میں ہل رہا تھا۔ اور یہ کہ فرش پر بھی بے وجہ گہرے نشانات موجود تھے، جیسے کوئی بھاری فرنیچر کو گھسیٹ رہا ہو۔
یہ سمجھا گیا کہ ڈاکٹر، ماہر نفسیات یا ذہنی امراض کے ماہر اس کیفیت کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے ہیں کہ یہ آخر کیا ہو رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نوجوان کی والدہ پادری لوتھر مائلز شولز کے پاس گئیں جنھوں نے کیتھولک چرچ کے تجربے کے پیش نظر انھیں کہا کہ ’شیطان کے زیر اثر‘ ہونے کا معاملہ ہے اور انھیں واشنگٹن میں کیتھولک کمیونٹی سے ملنے کی تجویز دی۔
چرچ میں بد روحوں کو نکالنے کا رواج تقریباً اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود مذہب: مذہبی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت عیسیٰ نے خود شیطانوں کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کے جسموں کو چھوڑ دیں جن پر وہ قابض ہیں۔
1614 سے چرچ بد روحوں کو انسانوں کے جسم سے نکالنے کا عمل ایک خاص طریقہ کار کے تحت انجام دیتا آ رہا ہے۔ (ایک ایسا طریقہ کار جس کا 1999 میں جائزہ لیا گیا اور اس میں ترمیم کی گئی)۔
ڈیوک یونیورسٹی کے شعبہ پیرا سائیکالوجی کو بھیجے گئے ایک خط میں شلزے کو اس غیر فطری واقعے کے گواہوں میں سے ایک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کی رولینڈ کا خاندان تجربہ کر رہا تھا: ’کرسیاں اس کے ساتھ حرکت کر رہی تھیں، اور ایک اس پر آ پڑی تھی۔ اور جب بھی رولینڈ اپنے بستر پر ہوتا تو وہ ہلنا شروع ہو جاتا۔‘
،تصویر کا ذریعہST LOUIS UNIVERSITY
پادری ریمنڈ بشپ
’جِن نکالنے کے لیے بہترین دن‘
’بد روحوں کے زیر اثر‘ نوجوان رولینڈ کے رشتہ داروں کی تلاش انھیں میسوری کے شہر سینٹ لوئس تک لے گئی جہاں ان کا رابطہ یونیورسٹی کی مسیحی برادری سے ہوا۔
وہاں ایک پادری ریمنڈ بشپ نے اس نوجوان کی کہانی میں دلچسپی لی اور اسے یونیورسٹی کے حکام کے پاس لے گیا جنھوں نے اس پادری کو یہ دیکھنے کی اجازت دی کہ اس لڑکے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بشپ نے اپنے دوروں کی تفصیلات ایک ڈائری میں درج کرنا شروع کر دی جسے بعد میں یونیورسٹی نے اپنے پاس رکھا۔
پادری کی تحریروں کے مطابق جس نے پہلی بار اس سارے واقعے کو دیکھا تو اس وقت رولینڈ کا بستر ہل رہا تھا، لیکن جب پادری نے اس پر دعا پڑھی اور مقدس پانی سے صلیب کا نشان بنایا تو یہ ہلنا رک گیا۔
پادری نے ولیم ایچ باؤڈرن نامی یونیورسٹی کے چرچ کے ایک تجربہ کار پادری کی مدد لی۔
سینٹ لوئس یونیورسٹی کی طرف سے اس واقعے کے حقائق کے مرتب کردہ ایک مجموعے کے مطابق ’52 سالہ باؤڈرن جو دوسری جنگ عظیم کے تجربہ کار تھے اور وسیع تدریسی تجربہ رکھتے تھے، دو دن بعد رولینڈ سے ملنے گئے۔ اپنے دورے کے دوران رولینڈ کو صلیب کی طرح کی دو لمبی خراشیں آئیں تھی جبکہ مقدس پانی جیسی اشیا کمروں میں سے اڑ گئیں تھیں۔‘
یونیورسٹی کے مطابق بشپ اور باؤڈرن نے سینٹ لوئس کے آرچ بشپ سے جن نکالنے کی درخواست کی اور چرچ اتھارٹی نے اس عمل کی منظوری دے دی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بشپ کی ڈائریوں میں تقریباً دو مہینوں کے عمل کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو پادریوں نے مارچ اور اپریل 1949 کے درمیان انجام دیے تھے۔
’جن نکالنے کے عمل کے منتر جاری تھے کہ رولینڈ اپنے تکیے اور بستر کی چادر سے الجھتے ہوئے پرتشدد انداز میں جھنجھلا گیا۔ تین آدمیوں کو رولینڈ کے بازو، ٹانگیں اور سر کو پکڑنا پڑا۔ رولینڈ کی اس حالت میں فطری طاقت سے زیادہ جسمانی طاقت کا انکشاف ہوا۔‘
’رولینڈ نے ان لوگوں کے چہروں پر تھوک دیا جنھوں نے اسے پکڑ کر دعا کی تھی۔ وہ مذہبی تصویروں اور پادریوں کے ہاتھوں پر تھوکتا تھا۔ جب اُنھوں نے اُس پر مقدس پانی چھڑکا تو وہ کانپ اٹھا۔ اس نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی اور ایک اونچی شیطانی آواز میں چیخا۔‘
سینٹ لوئس یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ’لڑکے کے عذاب کو کم کرنے کی کوشش میں‘ یہ عمل مختلف جگہوں پر انجام دیے گئے۔ بشپ نے ان مختلف مقامات پر عجیب و غریب واقعات کا ذکر کیا جیسا کہ: ایک بحالی مرکز کے داخلی دروازے پر رولینڈ پر مقدس پانی چھڑکے جانے کے بعد اس نے ایک کھائی میں کودنے کی کوشش کی۔
بشپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسٹر کے دن جب اسے یونیورسٹی ہسپتال لے جایا گیا تھا رولینڈ پریشانی سے بیدار ہوا جبکہ اس دوران پادری باؤڈرن نے جن نکالنے کا عمل جاری رکھا ہوا تھا۔ اپنی ڈائری میں وہ باؤڈرن اور رولینڈ کے درمیان ایک مقالمے کا ذکر کرتے ہیں جو قابل غور ہے۔
جِن نکالنے کے عمل کے دوران پادری باؤڈرن شیطان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت بتائے اور لڑکے کے جسم سے نکل جائے۔ اس پر رولینڈ نے ایک خراب اور بھاری آواز میں مبینہ طور پر جواب دیا کہ ’اسے (رولینڈ) کو صرف ایک اور لفظ کہنا ہے، ایک اور لفظ۔ ایک چھوٹا سا لفظ، جو میرے لیے ایک بڑا اہم لفظ ہے۔ وہ یہ لفظ کبھی نہیں کہے گا۔ میں ہمیشہ اس میں رہوں گا۔ میرے پاس شاید زیادہ طاقت نہ ہو لیکن میں ہمیشہ اس میں ہوں. وہ یہ لفظ کبھی نہیں کہے گا۔‘
بشپ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد آدھی رات سے چند منٹ پہلے انھوں نے رولینڈ کو ایک مختلف آواز میں بولتے سنا، اس میں کہا گیا: ’شیطان! شیطان! میں سینٹ مائیکل ہوں اور میں شیطان آپ کو اور دیگر بُری روحوں کو حکم دیتا ہوں کہ ڈومینس کے نام پر جسم کو فوراً چھوڑ دیں۔ پہلے ہی! پہلے ہی! پہلے ہی!
جب رولینڈ بیدار ہوا تو اس نے پادریوں کو بتایا کہ بڑے فرشتے سینٹ مائیکل نے اسے بچانے کے لیے ایک بڑی جنگ لڑی اور وہ جیت گیا تھا: ’اب وہ جا چکا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
رولینڈ ڈو کون تھا؟
سینٹ لوئس چرچ کے حکام نے رولینڈ کی شناخت کے تحفظ کے لیے اس معاملے پر عوامی بیان جاری کیے بغیر کیس بند کر دیا۔ تاہم اگست 1949 میں اس خاندان کے لوتھران پادری نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کی جس نے پھر وہ کہانی شائع کی جو بالآخر ولیم پیٹر بلاٹی کے کانوں تک پہنچ گئی۔
جب یہ کہانی شائع ہوئی تو اس میں خاصی دلچسپی تھی۔ اس سے متاثر ہو کر لکھا گیا ناول اور فلم دونوں نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کے باوجود رولینڈ گمنام رہنے میں کامیاب رہے۔
کئی سالوں کے دوران مختلف مصنفین، جنھوں نے اس واقعے کی تحقیقات کیں، نے رولینڈ کی شناخت 1935 میں ریاست میریلینڈ میں پیدا ہونے والے شخص کے طور پر کی جس نے ناسا کے لیے ایرو سپیس انجینیئر کے طور پر کام کیا۔
سنہ 2021 میں امریکہ میں کئی میڈیا اداروں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ شخص 2020 میں 86 سال کی عمر کو پہنچنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہو گیا تھا۔
اگرچہ 1949 کے ان دو مہینوں میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں کافی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں لیکن اس کے دو مرکزی کرداروں کی باتیں اس بارے میں کچھ روشنی ڈال سکتی ہیں۔
سنہ 1974 میں اپنی کتاب ’دی ڈیول، ڈیمونولوجی اینڈ وِچ کرافٹ‘ میں مورخ ہنری اے کیلی نے فادر باؤڈرن سے براہِ راست گواہی حاصل کی جنھوں نے بتایا کہ ان کے پاس جن نکالنے کا حکم براہِ راست چرچ کے حکام سے آیا تھا اور یہ کہ انھوں نے صرف اپنا کام کیا تھا۔
لیکن کیلی نے اپنی کتاب میں وضاحت کی کہ ’رولینڈ کی شیطان کے زیر اثر ہونے کی وہ کیا نشانیاں تھیں جن کی وجہ سے سینٹ لوئس کے کلیسیائی حکام نے جن نکالنے کے عمل کا سہارا لیا؟ فادر باؤڈرن کا جواب سادہ اور سیدھا تھا: عمل شروع ہونے سے پہلے اس پر جن کے اثر ہونے کی کوئی نشانی کی اطلاع یا مشاہدہ نہیں تھے۔‘
کیلی کے مطابق اس معاملے کی پرانی تحقیقات میں کمی تھی اور چیزوں کے حرکت کرنے جیسے واقعات کی مختلف وضاحتیں ہو سکتی تھیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ عمل کے دوران طبی نگرانی کی کمی بشپ کی ڈائریوں میں گواہی کی صداقت پر شکوک پیدا کرتی ہے۔
Comments are closed.