اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری کے کیس میں آئی جی پولیس پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی نئی عمارت میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ توہینِ عدالت کا شوکاز جاری کرنے کے لیے فِٹ کیس ہے، فواد چوہدری کیس میں تحمل کا مظاہرہ کیا، مگر اس پر حکم نامہ جاری کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ چیف کمشنر نے پنجاب پولیس کی درخواست پر مناسب اقدامات کی ہدایت کی۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے چیف کمشنر کے احکامات مانے اور اس عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی، یہ توہینِ عدالت کا شوکاز جاری کرنے کے لیے فِٹ کیس ہے۔
انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ خود کو مزید شرمندہ مت کریں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آنکھیں بند کر کے غیرقانونی کام ہونے دوں؟
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں شیریں مزاری سے جیل میں ملاقات کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
عدالت نے جیل حکام سے سوال کیا کہ کیا آپ نے انہیں ملاقات سے منع کیا؟
جیل پولیس کے افسر نے جواب دیا کہ ہم نے ان کی 2 ملاقاتیں کروائیں لیکن آخری بار ہفتے کی شام کو یہ آئے، میں نے انہیں کہا کہ آپ دیر سے آئے ہیں، کل صبح آ جائیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یاد رکھیں یہ ایم پی او کے تحت جیل میں ہیں، کوئی ملزم نہیں، یہ لوگ کسی کریمنل کیس میں ملزم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مناسب حکم نامہ جاری کریں گے، اس درخواست پر آئی جی اسلام آباد کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا جا سکتا، توہینِ عدالت کی درخواست میں آئی جی اسلام آباد کو فریق نہیں بنایا گیا۔
شیریں مزاری کے وکیل نے کہا کہ ہم اپنی درخواست میں ترمیم کر دیتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ فواد چوہدری کیس میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی تھی، عدالت نے حکومت کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا، مگر اس کیس میں حکم نامہ جاری کریں گے۔
Comments are closed.