بدھ7؍شوال المکرم 1442ھ19؍مئی 2021ء

شہزادہ ہیری اور میگھن کے دعوؤں پر برطانوی شاہی خاندان کا ہنگامی اجلاس

شہزادہ ہیری اور میگھن کا انٹرویو: جوڑے کے دعوؤں پر برطانوی شاہی خاندان کا ہنگامی اجلاس، تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا

میگھن، اوپرا، ہیری

امریکی میزبان اوپرا ونفری کے ساتھ ڈیوک اور ڈچز آف سسیکس شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کے انٹرویو کے بعد برطانوی شاہی خاندان کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا ہے جس میں کئی سینیئر افراد نے شرکت کی ہے۔

بی بی سی کی شاہی نامہ نگار ڈینیئلا ریلف کے مطابق شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ کے سنگین دعوؤں کے بعد ‘بکنگھم پیلس کی خاموشی اس کے لیے مسلسل عدم برداشت کا باعث بن رہی ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’پیلس یہ نہیں چاہے گا کہ اسے فوری طور پر بیان جاری کرنے کا کہا جائے۔‘

شہزادہ ہیری اور میگھن نے اس انٹرویو میں نسلی تعصب، ذہنی صحت، میڈیا اور شاہی خاندان کے دیگر افراد کی بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

میگھن، جو شہزادہ ہیری سے شادی کے بعد شاہی خاندان میں پہلی غیر سفید فام رکن بنی تھیں، نے شاہی خاندان کے فرد کا نام نہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے ہیری سے پوچھا کہ آرچی کی رنگت ‘کتنی سیاہ’ ہوگی۔

شہزادہ ہیری نے بعد میں ونفری سے وضاحت کی تھی کہ یہ بات ملکہ برطانیہ یا ان کے خاوند شہزادہ فلپ نے نہیں کہی تھی۔

دریں اثنا امریکی صدر کی ترجمان نے کہا ہے کہ جو بائیڈن کسی بھی ایسے شخص کو سراہتے ہیں جو ذہنی صحت پر بات کرنے کی ہمت کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا ہے کہ اس انٹرویو میں ہیری اور میگھن دونوں ذاتی حیثیت میں خود کو درپیش مشکلات کے بارے میں بتا رہے تھے۔

Meghan, Archie and Harry

اسی انٹرویو میں ڈچس آف سسیکس اور اداکارہ میگھن مارکل نے بتایا کہ جب وہ شاہی خاندان کا حصہ تھیں تو انھوں نے خودکشی کے بارے میں سوچا تھا اور جب انھوں نے مدد مانگی تو انھیں کوئی سہارا نہیں ملا۔ ‘میں نے سوچا کہ میری خودکشی سے بہت سے لوگوں کے لیے بہت کچھ حل ہو جائے گا۔’

لیبر کی شیڈو وزیر تعلیم کیٹ گرین کا کہنا تھا کہ میگھن کے دعوے کافی ’پریشان کن اور حیرانی کا باعث ہیں۔‘

انھوں نے سکائی نیوز کو بتایا کہ ’اگر یہاں نسلی تعصب کے الزامات ہیں تو میں امید کروں گی کہ پیلس انھیں سنجیدگی سے لے اور ان کی تحقیقات کرے۔‘

لیبر پارٹی کے رہنما سر کائر سٹارمر نے کہا ہے کہ میگھن کے نسلی امتیاز اور ذہنی صحت کی عدم سہولیات کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پیر کو اس پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن انھوں نے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ’ملکہ برطانیہ کی عزت کرتے آئے ہیں اور وہ اتحاد پیدا کرنے کا کردار ادا کرتی ہیں۔‘

’جہاں بات شاہی خاندان کے معاملات کی ہو تو وزیر اعظم کے لیے بہتر ہے کہ وہ کچھ نہ کہے۔‘ ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا انھیں لگتا ہے کہ شاہی خاندان میں نسلی تعصب پایا جاتا ہے۔

ہیری، میگھن، آرچی

شہزادہ ہیری اور میگھن نے اس انٹرویو کے بعد اپنی ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں ان کے ساتھ ان کا بیٹا آرچی ہے

اوپرا نے میگھن سے پوچھا تھا کہ انھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ شاہی خاندان آرچی کو شہزادے کا لقب نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس پر میگھن نے کہا کہ وہ اسے لقب دلوانا چاہتی تھیں تاکہ اسے پولیس کا تحفظ دیا جاسکے۔

‘جب میں حاملہ تھی تو انھوں نے کہا کہ وہ آرچی (میگھن اور ہیری کے بیٹے) کے لیے اصول بدل رہے ہیں۔ لیکن کیوں؟

’اردگرد ایسی باتیں ہو رہی تھیں کہ بچے کی پیدائش پر اس کی جِلد کتنی سیاہ ہوگی۔’ وہ انٹرویو میں کہتی ہیں کہ یہ بات ہیری سے کہی گئی تھی جو انھوں نے میگھن کو بتائی۔

سنہ 1917 کے قانون کے تحت اس شاہی جوڑے کے بچوں کو شہزادہ یا شہزادی کا لقب نہیں دیا جاسکا تھا۔ ایسا صرف تب ممکن ہوسکتا ہے جب ملکۂ برطانیہ مداخلت کریں۔

’نقصان دہ‘ دعوے

تاہم انھوں نے شاہی خاندان کے اس فرد کا نام لینے سے انکار کیا جنھوں نے ہیری سے یہ بات کہی تھی۔ کیونکہ ان کے خیال میں یہ اس فرد کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر شہزادہ ہیری کا کہنا تھا کہ ‘یہ گفتگو میں کبھی بھی شئیر نہیں کروں گا۔ اس وقت بھی مجھے یہ بات بہت عجیب لگی تھی، مجھے قدرے صدمہ پہنچا۔’

پیر کو اوپرا ونفری نے کہا ہے کہ پرنس ہیری نے وضحات کی تھی کہ شاہی خاندان کے جس فرد نے ان کے بچے کی رنگت کے بارے میں سوال کیا تھا وہ نہ تو ملکہ برطانیہ تھیں اور نہ ہی ان کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا تھے۔

ہیری نے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’اس وقت یہ بہت پریشانی کا باعث تھا۔ میں حیرت میں مبتلا ہوا تھا۔‘

اوپرا کے ایک سوال کے جواب میں شہزادہ ہیری کہتے ہیں کہ جب انھوں نے اعلان کیا کہ وہ شاہی عہدے سے دستبردار ہونے جا رہے ہیں تو ‘کئی مدیروں کے ایک دوست’ نے انھیں میڈیا سے لڑائی مول لینے پر خبردار کیا تھا۔ ‘میڈیا کے ساتھ ایسا نہ کیجیے گا، وہ آپ کی زندگی برباد کر دیں گے۔’

میگھن، ہیری

ان کا کہنا تھا کہ ان کے کسی رشتہ دار نے میگھن کی حمایت میں آواز بلند نہیں کی تھی جب میڈیا کی ہیڈلائنز اور تحاریر میں ان کے خلاف ’نوآبادیاتی تاثر‘ شامل ہوتا تھا۔

’خاندان کے کسی بھی فرد نے ان تین برسوں میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ یہ تکلیف دہ ہے۔‘

جوڑے نے انکشاف کیا کہ جب ان کی مالی مدد بند کر دی گئی تو جس وقت وہ کینیڈا سے جنوبی کیلیفورنیا منتقل ہوئے، اس وقت امریکی ارب پتی ٹائلر پیری نے گذشتہ سال ہیری اور میگھن کو ایک گھر اور سکیورٹی فراہم کی۔

وہ مارچ 2020 میں اپنے شاہی عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے اور گذشتہ ماہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ شاہی خاندان کے فعال ممبران کی حیثیت سے کام نہیں کرسکیں گے۔

شہزادہ ہیری نے کہا ہے کہ ٹیبلائڈ پریس کا نسلی امتیاز برطانوی سماج میں بھی پایا جانے لگا ہے اور یہ ان کے ملک چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ بنی اور شاہی خاندان کے کسی بھی فرد نے ان سے اس حوالے سے اظہار ہمدردی نہیں کیا۔

دیگر انکشافات میں یہ بھی شامل ہیں:

  • جوڑے کے مطابق امکان ہے کہ ان کی بیٹی کا جنم آئندہ موسم گرما میں ہوگا۔ آرچی کے بعد یہ ان کا دوسرا بچہ ہوگا۔
  • جوڑے نے کہا کہ حقیقت میں ان کی شادی تقریب سے تین دن قبل ہو گئی تھی۔ میگھن کے مطابق ’ہم نے کینٹربری کے آرچ بشپ کو بلایا اور صرف اتنا کہا دیکھیں یہ تماشا دنیا کے لیے ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بندھن ایسے بندھے کہ اس میں صرف ہم دونوں ہی ہوں۔’
  • ہیری نے کہا ہے کہ ان کے بھائی اور والد شاہی خاندان کے نظام میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
  • انھوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان نے ان کی مالی معاونت گذشتہ سال کے آغاز میں ختم کر دی تھی اور ان کے والد نے اس کے بعد سے ان کی فون کال موصول نہیں کی۔
  • پرنس ولیم کے بارے میں شہزادہ ہیری کا کہنا تھا کہ وہ ان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور دونوں نے اکھٹے ہر قسم کے حالات کا سامنا کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم دو مختلف راستوں پر تھے۔’ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے والد اور بھائی کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتا ہوں۔‘
  • میگھن نے کہا ہے کہ انھوں نے گذشتہ ماہ ملکہ کو فون کیا تھا جب شہزادہ فلپ کو ہسپتال داخل کیا گیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.