اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
آج صبح اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سماعت کرتے ہوئے شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو ساڑھے 10 بجے سناتے ہوئے پولیس کی استدعا مسترد کر دی۔
اس سے قبل اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
شہباز گِل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ڈیوٹی مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت نے غیر ضروری افراد کو کمرۂ عدالت سے باہر نکلنے کی ہدایت کی۔
عدالت سے اجازت ملنے پر لیگل ٹیم نے کمرۂ عدالت میں شہباز گِل سے ملاقات کی۔
وکلاء کی درخواست پر شہباز گِل کی ہتھکڑی کھول دی گئی۔
پولیس نے عدالت سے شہباز گِل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔
شہباز گِل نے کمرۂ عدالت میں پہنچتے ہی علی نواز اعوان کے کان میں سرگوشی کی۔
شہباز گِل کے وکیل فیصل چوہدری نے پی ٹی آئی رہنماؤں سے کمرۂ عدالت سے باہر جانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب آ گئے ہیں کمرۂ عدالت میں خاموشی اختیار کریں۔
تفتیشی افسر نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پروگرام کی سی ڈی لی ہے، آڈیو شہباز گِل سے میچ کر گئی ہے، ایک موبائل ان کی گاڑی میں رہ گیا تھا، دوسرا ان کے پاس تھا۔
شہباز گِل نے عدالت کے سامنے بیان دینا شروع کر دیا۔
شہباز گِل نے عدالت کو بتایا کہ 4 بجے کا وقت تھا، اس وقت کوئی موبائل نہیں چل رہا تھا، سگنل نہیں تھے، میرا جسمانی چیک اپ نہیں کیا گیا، وکلا ء سے ملنے نہیں دیا جا رہا، جیل میں ساری رات مجھے جگائے رکھا گیا ہے۔
شہباز گِل نے قمیض اٹھا کر عدالت کو اپنی کمر دکھائی اور کہا کہ مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، میرا میڈیکل نہیں ہوا، سوچ بھی نہیں سکتا کہ افواجِ پاکستان کے بارے میں ایسی بات کروں گا، میں پروفیسر ہوں مجرم نہیں ہوں، مجھے تھانہ کوہسار میں نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کھاتے کیا ہیں؟ میں وفاقی کابینہ کا ممبر رہا ہوں، میرا فرضی میڈیکل اپنی مرضی سے بنایا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ ٹرانسکرپٹ تھا جو پڑھا گیا، یہ نہیں بتا رہے کہ کون اس کے پیچھے ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کرانا ہے کہ شہباز گِل سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شہباز گِل موبائل اور لیٹ ٹاپ تک رسائی نہیں دے رہے، ڈرائیور کو انہوں نے بنی گالہ میں چھپایا ہوا ہے، یہ نہیں بتا رہے کہ کون ان کے پیچھے تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے ملزم شہباز گِل کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کر دی۔
اس موقع پر شہباز گِل کی پروگرام میں گفتگو کا ٹرانسکرپٹ عدالت کے سامنے پڑھا گیا۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ فوج کے اندر مختلف رینکس کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی گئی، شہباز گِل سے تفتیش کا مقصد یہ ہے کہ ہم شواہد اکٹھے کرنا چاہتے ہیں، پہلے ریمانڈ میں ہم کہہ رہے تھے کہ اس کا ٹرانسکرپٹ اصلی ہے یا نہیں، اب ہم نے دیکھنا ہے کہ پروگرام کے پیچھے پروڈیوسر کون تھا، میری استدعا ہے کہ شہباز گِل ہائی پروفائل ملزم ہیں، ان کا پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے، ہمیں چار پانچ دن دیں تاکہ پنجاب فرانزک لیب سے پولی گرافک ٹیسٹ کرائیں، ہم نے پیمرا کو بھی لکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ ملزم شہباز گِل کو کراچی لے جانا پڑے، ہمیں شہبازگِل اپنا موبائل کیوں نہیں دے رہے؟
شہباز گِل کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ تشدد کے نشانات کپڑوں پر نہیں، شہباز گِل کی کمر پر ہیں، میڈیا کو فیڈ کیا جا رہا ہے کہ شہباز گِل وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے فیصل چوہدری کے میڈیا پر الزامات لگانے پر اعتراض کر دیا۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ ملزم شہباز گِل کے پاس دوسرا موبائل بھی ہے؟
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہمارے ذرائع نے بتایا ہے کہ شہباز گِل کے پاس دوسرا موبائل بھی تھا۔
شہباز گِل نے کہا کہ پروگرام میں لینڈ لائن نمبر سے بات ہوئی ہے، موبائل سے ہوئی ہی نہیں۔
وکی فیصل چوہدری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ موبائل لینا چاہتے ہیں جس میں سب سیاسی سرگرمیاں ہیں، فوجی ادارے یا دیگر اداروں کا سب احترام کرتے ہیں، اب یہ چاہتے ہیں کہ شہباز گِل کو کراچی، اسکردو اور شمالی علاقہ جات لے کر جائیں، جو رٹی رٹائی تقریر انہوں نے کی اس میں کچھ بھی نہیں، پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہی نہیں، وہ ویسے بھی کرا سکتے ہیں، ایف آئی اے ان کے ہاتھ میں ہے، یہ میرا اور آپ کا نام بھی ڈال دیں گے۔
شہباز گِل کے وکیل علی بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک کیس میں 2 مقدمے نہیں ہو سکتے، کراچی کے مقدمے میں ملزم کو اسی روز عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا، ایک ہی قسم کے الزامات اور ایک ہی قسم کے ملزم ہیں، کراچی کی عدالت نے ملزم رہا کر دیا تھا۔
وکیل علی بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ شکایت کرنے والے کا بیان انہوں نے کیا لیا ہے؟ کوئی تائیدی بیان انہوں نے لیا ہے کیا؟ ابھی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس زیرِ التواء ہے، یہ بنانا اسٹیٹ نہیں، ہر ملزم کے حقوق ہیں۔
اس موقع پر شہباز گِل بات کرنے کے لیے دوبارہ روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ مجھ سے بار بار سوال ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کہنے کے لیے عمران خان نے کہا تھا؟ میں کہتا ہوں کہ میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا، مجھ سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔
شہباز گِل کے ایک اور وکیل نیاز اللّٰہ نیازی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ملک کے لیے مضبوط فوج ضروری ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزم شہباز گِل کو کبھی ایک تھانے، کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے تھانے میں رکھا جاتا ہے۔
پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گِل کا میڈیا ٹرائل نہیں ہو رہا، ہم قانونی کارروائی آگے بڑھا رہے ہیں، شہباز گِل کی ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ مثبت آئی ہے، کیا ان کا ٹرانسکرپٹ اداروں کے خلاف نہیں؟ جب موبائل مل جائے گا اور اس کا بھی فرانزک ہو جائے گا تو اس حوالے سے بھی پتہ بھی چل جائے گا۔
عدالت نے پولیس کی شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
فیصلہ ساڑھے 10 بجے سناتے ہوئے عدالت نے پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شہباز گِل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
شہباز گِل کی پیشی کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری عدالت اور اطراف میں تعینات کی گئی۔
اس موقع پر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری، کنول شوزب، علی نواز اعوان اور دیگر بھی اسلام آباد کچہری پہنچے۔
پی ٹی آئی کارکنان بھی کچہری کے باہر پہنچے، تاہم پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان کو عدالت کی طرف جانے سے روک دیا۔
پی ٹی آئی کارکنان نے عدالت میں داخلے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو دھکے دیے۔
پی ٹی آئی کارکنان نے عدالت کے باہر ن لیگ کے خلاف اور اپنے لیڈروں کے حق میں نعرے بھی لگائے۔
واضح رہے کہ شہباز گِل کو چند روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔
شہباز گِل پر تھانہ بنی گالہ میں اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج ہے۔
Comments are closed.