شمالی کوریا کی تصدیق کے بعد امریکہ اپنے فوجی کی واپسی کے لیے کیسے کوشش کرے گا؟

امریکی فوجی

،تصویر کا ذریعہReuters

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات کی درخواست کے جواب میں شمالی کوریا نے تصدیق کی ہے کہ ٹریوس کنگ ان کی تحویل میں ہے۔

23 سالہ فوجی 18 جولائی کو ایک گائیڈڈ ٹور کے دوران جنوبی کوریا سے سرحد پار کر کے شمالی کوریا میں داخل ہوا تھا۔

یو این کمانڈ نے کہا کہ وہ اس وقت پیانگ یانگ کے ردعمل کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں گے۔ یو این کمانڈ کا کہنا ہے کہ وہ ’اس کی واپسی کی کوششوں میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔‘

تاہم اس جواب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیانگ یانگ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی کمان جو غیر فوجی علاقے کی نگرانی کرتی ہے، نے امریکی فوجی کی معلومات کے لیے شمالی کوریا کی فوج سے براہ راست ٹیلیفونک رابطہ کیا۔

ان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’شمالی کوریا کی فوج نے امریکی فوجی ٹریوس کنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی کمان کو جواب دیا۔ ان کی واپسی کی ہماری کوششوں میں مداخلت نہ کرنے کے لیے، ہم اس وقت تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔‘

شمالی کوریا نے پہلے بھی اس درخواست کو تسلیم کیا تھا لیکن یہ پہلا موقع ہے جب انھوں نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ امریکی فوجی ان کی تحویل میں ہے تاہم عوامی سطح پر انھوں نے امریکی فوجی کی تحویل کی تصدیق نہیں کی تھی۔

شمالی کوریا کی سرحد پار کرنے سے قبل ٹریوس کنگ نے ایک لڑائی جھگڑے کے مقدمے کے تحت دو ماہ جنوبی کوریا کی جیل میں گزارے تھے اور انھیں 10 جولائی کو رہا کیا گیا تھا۔

امریکی فوجی کو مزید تادیبی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے واپس امریکہ جانا تھا لیکن وہ ہوائی اڈے سے نکل کر غیر فوجی علاقے کے دورے میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

امریکی فوجی ٹرویس کنگ جاسوسی کے ماہر ہیں جو جنوری 2021 سے فوج میں تھے اور اپنی ملازمت کے دوران تعیناتی کے طور پر جنوبی کوریا میں تھے۔

شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان ڈی ملٹرائزڈ زون یعنی غیر فوجی زون وہ علاقہ ہے جو دونوں کوریائی ممالک کو الگ کرتا ہے اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ مضبوط دفاعی علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے، جس کے چاروں طرف برقی اور خاردار تاروں کی باڑ لگائی گئی ہے اور نگرانی کے کیمرے نصب ہیں۔

امریکی فوجی اور شمالی کوریا

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ٹریوس کنگ، کالی قمیض اور کالی ٹوپی میں ملبوس، شمالی کوریا کی سرحد عبور کرنے سے پہلے وہاں موجود سیاحوں کے ساتھ کھڑے دیکھے گئے تھے

امریکہ کے لیے مشکل

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

شمالی کوریا، ایک ایسا ملک جو بیرونی دنیا کے لیے مکمل طور پر بند ہے اور صرف چند ممالک کے ساتھ ہی اس کے سفارتی رابطے ہیں۔ ایسے ملک کے ساتھ کسی بہترین وقت میں بھی مذاکرات کرنا کافی مشکل کام ہے۔

اور اب ایک نوجوان امریکی فوجی کی شمالی کوریا میں زیر حراست ہونے کی تصدیق کے بعد تو یہ معاملہ مزید مشکل ہو گیا ہے۔ امریکہ اپنے فوجی کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کس طرح کوششیں کر رہا ہے؟

شمالی کوریا میں داخل ہونے والے امریکی فوجی ٹریوس کنگ کے ساتھ کیا ہوا یا وہ اس وقت وہاں کن حالات میں ہیں تاحال کسی کو اس بارے میں صحیح طور پر معلوم نہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ان کی وطن واپسی کی کوشش اور بات چیت کے لیے ایک نازک مرحلے پر کھڑا ہے۔

اہم چیلنج یہ ہے کہ امریکہ کا شمالی کوریا کے ساتھ کبھی سرکاری سطح پر کوئی سفارتی تعلق نہیں رہا اور اسی وجہ سے امریکہ شمالی کوریا میں ’زیر حراست‘ شہریوں کی واپسی کے لیے بات چیت کے لیے متبادل سفارتکاری کے رابطوں پر انحصار کرتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ 23 سالہ امریکی فوجی کو شمالی کوریا کے حکام حراست میں لے کر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ ٹریوس کنگ کو آخری بار 18 جولائی کو شمالی اور جنوبی کوریا کو الگ کرنے والے غیر فوجی علاقے میں بھاگتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

اس کے بعد سے خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے، شمالی کوریا نے 31 جولائی کو دیر گئے سمندر میں دو بیلسٹک میزائل داغے جبکہ ایک امریکی جوہری آبدوز جنوب میں تعینات کر دی گئی۔

رچرڈسن سنٹر فار گلوبل ڈپلومیسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مکی برگ مین نے کہا کہ تمام فریق یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر کیا ہوا اور اب کیا کرنا ہے۔

مکی برگ مین، جنھوں نے دشمن ممالک سے امریکی شہریوں کی واپسی کے لیے تقریباً 20 سال مذاکرات کیے ہیں، کا کہنا ہے کہ کسی قیدی کو حراست میں لینے کے بعد رہا کرنے کا بہترین موقع اس واقعے کے فوراً بعد کا وقت ہوتا ہے۔ یہ اس قیدی پر جاسوسی کا الزام لگائے جانے سے قبل کا وقت ہوتا ہے جب ان سے ملک کے حکام ممکنہ طور پر پوچھ گچھ کر رہے ہوتے ہیں۔

برگمین کا کہنا ہے کہ معاملات کے باضابطہ ہونے سے پہلے ہی رہائی کی اپیل کا بہترین وقت ہوتا ہے اور اُس وقت مذاکرات کار انسانی بنیادوں پر رہائی کی اپیل کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اس بارے میں غلط فہمی ہے کہ مذاکرات کیا ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم اپنا سینا پیٹتے رہے اور دوسرے کے نقطہِ نظر کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں اور یہ مطالبہ کرتے رہے کہ شمالی کوریا ہمارے فوجی کو واپس کریں، تو ہم ممکنہ طور پر ان کو اپنے موقف میں ضدی کر دیں گے۔‘

یہاں اس بات کو بھی دیکھتے ہیں کہ امریکہ نے اس سے پہلے بھی ایک امریکی شہری کی واپسی کے لیے کس طرح مذاکرات کیے تھے۔

امریکی فوجی اور شمالی کوریا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی سفارت کار رابرٹ کنگ شمالی کوریا کے انسانی حقوق کے امور کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی ہیں

نیویارک چینل

چونکہ امریکہ نے کبھی بھی شمالی کوریا کے ساتھ باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات نہیں رکھے ہیں، اس لیے قیدیوں کے بحران کے دوران سویڈن نے شمالی کوریا کے حکام سے پیانگ یانگ میں اپنے سفارت خانے سے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اس نے شمالی کوریا کے حکام سے رابطے میں مدد کی تھی۔

لیکن متبادل سفارتی طریقے یا ’بیک چینلز‘ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کا نیویارک میں اقوام متحدہ میں اپنا مشن موجود ہے۔ بحران کے دنوں میں شمالی کوریا کا مشن، جسے نیو یارک چینل کا نام دیا جاتا ہے، دونوں ممالک کے حکام کے لیے بات چیت کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔

رابرٹ کنگ برسوں تک ان چند افراد میں سے ایک تھے جنھیں ایک امریکی شہری کے شمالی کوریا میں پکڑے جانے کی کال موصول ہوئی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ میں شمالی کوریا کے انسانی حقوق کے لیے سابق خصوصی ایلچی کے طور پر سفیر نے طالب علم اوٹو وارمبیئر اور امریکی مشنری کینتھ بی سمیت متعدد قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں مدد کی۔

17 ماہ قید رہنے کے بعد، امریکی کالج کے طالب علم اوٹو وارمبیئر کو 2017 میں شمالی کوریا کی حراست سے بے ہوشی کی حالت میں رہا کروایا گیا۔ وہ ذہنی صدمے کے ساتھ امریکہ واپس آئے اور اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملنے کے چند دن بعد انتقال کر گئے تھے۔

اوٹو وارمبیئر کی موت نے بین الاقوامی غم و غصے کو جنم دیا اور ان کے خاندان نے شمالی کوریا کے باشندوں کے خلاف بدسلوکی اور تشدد کے الزامات عائد کیے تھے۔

ٹرمپ انتظامیہ میں مختصر عرصے تک سفارت کاری کرنے کے بعد، رابرٹ کنگ نے کہا تھا کہ بعض اوقات وسیع جغرافیائی سیاسی لڑائیوں میں دو ممالک کے درمیان کشیدگی نہ صرف مذاکرات میں مشکل پیدا کرتی ہے بلکہ قیدیوں کو پیادوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

رابرٹ کنگ نے کہا کہ ’(شمالی کوریا) اسے اس طرح دیکھتا ہے کہ ’ہم اس موقع کو امریکہ کو برا دکھانے کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ اور اس کے نتیجہ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ خوش کن نہیں ہوتا۔‘

محتاط سفارت کاری

تقریباً 20 سال سے، مکی برگمین نے نیو میکسیکو کے سابق گورنر بل رچرڈسن کے ساتھ مل کر امریکہ کے مخالف ممالک سے قیدیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا ہے۔

اگرچہ رچرڈسن سینٹر امریکی فوجی ٹریوس کنگ کیس کی رہائی کے لیے فی الحال کوئی کام نہیں کر رہے لیکن برگمین نے اپنے تجربے کی بدولت کہا، جب شمالی کوریا کی بات آتی ہے تو مذاکرات کے لیے کوئی روایتی طے شدہ اصول و ضوابط نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بجائے بہتر ہے کہ کشیدہ مذاکرات کا آغاز محتاط سفارتکاری یعنی جسے وہ ’فرینج ڈپلومیسی‘ کہتے ہیں، سے کیا جائے۔

امریکی غیر منافع بخش تنظیمیں اور انسانی ہمدردی کے ادارے کئی دہائیوں سے شمالی کوریا کے باشندوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔ جب سرکاری چینلز رک جاتے ہیں، تو ان غیر سرکاری متبادل سفارتکاری یا ’بیک چینلز‘ کو اکثر قیدی کے خاندان کی جانب سے بات چیت کے لیے بلایا جاتا ہے۔

مکی برگ مین نے کہا کہ کسی ایک این جی او کی امریکی حکومت سے علیحدگی ایک فائدہ ہے کیونکہ یہ مذاکرات کو عالمی سیاست کی بجائے صرف اور صرف قیدی کی بہبود اور واپسی پر توجہ مرکوز کرنے کا ماحول بناتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’لوگ ہم سے پالیسی کے مسائل کے بارے میں بات کر سکتے ہیں لیکن ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اس مسئلے کو دور کرنے اور ان میں سے کچھ حالات کو حل کرنے کے راستے تلاش کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‘

برگ مین نے کہا کہ دنیا اکثر ’مداخلت‘ کے وقت پر توجہ مرکوز کرتی ہے جب ایک سیاسی قیدی کو بچایا جاتا ہے اور وہ گھر واپس آ جاتا ہے لیکن وہ لمحہ برسوں کے بامعنی رابطوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔

’آپ کو تعلقات استوار کرنے ہوں گے تاکہ جب کوئی بحران ہو تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ کو اس کا آغاز بالکل نئے سرے سے کرنا ہو گا۔‘

امریکی فوجی اور شمالی کوریا

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اوٹو وارمبیئر کی شمالی کوریا میں حراست کے بعد امریکہ واپس آنے کے چند دن بعد موت واقع ہو گئی تھی

پیچیدہ عوامل

لیکن کووڈ وبا نے بات چیت کے ان دونوں راستوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ شمالی کوریا نے وبائی امراض کے دوران اپنی سرحدیں مکمل طور پر بند کردی تھیں۔

مکی برگ مین نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ آیا پیانگ یانگ میں سویڈش سفارت خانہ پوری صلاحیت اور تمام عملے کے ساتھ وہاں کام کر رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ معاملات کو مزید پیچیدہ کرتے ہوئے، سفارت کاری کی ایک مختصر کوشش کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے شمالی کوریا پر سفری پابندی عائد کر دی تھی جس سے امریکی پاسپورٹ اور ویزے منسوخ ہو گئے۔

مکی برگ مین کہتے ہیں کہ یہ پابندی بائیڈن انتظامیہ کے دور میں بھی برقرار ہے اور اس نے رابطہ کاری کے لیے انسانی ہمدردی کی ذرائع کو ختم کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’شمالی کوریا دنیا کا واحد ملک ہے جس پر سفری پابندی ہے، یعنی وہاں امریکیوں کا سفر کرنا غیر قانونی ہے۔ شمالی کوریا کے لوگ اسے اپنی توہین کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

مکی برگ مین جو طالب علم وارمبیئر کی رہائی کے لیے مذاکرات میں شامل تھے، نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اوٹو وارمبیئر کی موت پر بین الاقوامی دھچکے نے سیاسی نظر بندیوں کے بارے میں شمالی کوریا کے نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے اور یہ ملک سمجھوتہ کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اوٹو وارمبیئر مذاکرات سے نمٹنے کے بعد اور انتہائی افسوسناک نتائج کے بعد، میں سمجھتا ہوں کہ شمالی کوریا نے اب سیاسی قیدیوں کا کھیل نہ کھیلنے کا انتخاب کیا ہے۔‘

لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ امریکی فوج کے ایک نچلے درجے کے فوجی ٹریوس کنگ کی جلد رہائی ہو گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ