ہفتہ10؍شوال المکرم 1442ھ 22؍ مئی 2021ء

شارجہ کا یادگار چھکا: توصیف احمد سنگل نہ لیتے تو میانداد چھکا کیسے مارتے؟

شارجہ کا یادگار چھکا: توصیف احمد سنگل نہ لیتے تو جاوید میانداد چھکا کیسے مارتے؟

  • عبدالرشید شکور
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہIqbal Munir

کسی فلمی کہانی کی طرح شارجہ کے مشہور چھکے کی کہانی بھی ایک ہیرو کے گرد گھومتی ہے جو جاوید میانداد تھے۔

لیکن اس سائیڈ ہیرو کی اہمیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے جس نے جاوید میانداد کو ہیرو بننے کا موقع فراہم کیا۔ شارجہ کی فلم میں یہ سائیڈ ہیرو توصیف احمد تھے۔

آج سے 35 برس قبل 18 اپریل 1986 کو شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں جاوید میانداد نے آسٹریلیشیا کپ کے فائنل کی آخری گیند پر چھکا لگا کر پاکستان کو روایتی حریف انڈیا کے خلاف ایک وکٹ کی ڈرامائی جیت سے ہمکنار کیا تھا۔

اس چھکے نے جہاں ورلڈ کلاس بلے باز جاوید میانداد کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ کر دیا، وہیں تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر توصیف احمد اس میچ کی پانچویں گیند پر ایک رن نہ بناتے تو جاوید میانداد چھکا کیسے لگا سکتے تھے؟

یہ بھی پڑھیے

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

توصیف احمد کہتے ہیں آج 35 سال گزر جانے کے بعد بھی میڈیا اور عام لوگ مجھ سے بات کرتے ہیں تو وہ اسی ایک رن کی وجہ سے جو میں نے بنایا تھا

اب کیا رہ گیا ہے؟ اب تو بھاگ جاؤں گا

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے توصیف احمد 35 سال پرانا وہ تاریخی لمحہ یاد کرتے ہیں تو ان کا لہجہ بتاتا ہے کہ جیسے وہ اس کے سحر میں کھو گئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب نویں وکٹ گرنے پر وہ ‘بوجھل قدموں’ کے ساتھ بیٹنگ کے لیے جا رہے تھا تو شارجہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے شور میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

’مجھے جاوید میانداد کی آواز بھی سنائی نہیں دی۔ بہرحال میانداد نے پہلے تو یہ پوچھا کہ ڈریسنگ روم میں کیا حالات ہیں؟ پھر مجھ سے کہنے لگے ʹکیا کرو گے؟‘ میں نے کہا بھاگ جاؤں گا۔ وہ کہنے لگے دیکھ لو۔ میں نے جواب دیا جاوید بھائی اب کیا رہ گیا ہے۔‘

62 سالہ توصیف احمد کہتے ہیں ’میں نے سوچ لیا تھا کہ گیند وکٹ کیپر کے ہاتھ میں بھی گئی تب بھی میں بھاگوں گا۔ میں نے پانچویں گیند کھیلی اور ایک رن کے لیے دوڑ پڑا۔

’گیند اظہرالدین کے پاس گئی جو ایک بہترین فیلڈر تھے ۔ وہ چاہتے تو آرام سے آ کر بیلز اڑا کر مجھے رن آؤٹ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے وہیں سے تھرو کی جو وکٹوں پر نہیں لگی جبکہ میں بہت دور تھا۔ میں بچ گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔‘

توصیف احمد بتاتے ہیں کہ انھوں نے پاکستانی وکٹ کیپر ذوالقرنین سے پہلے بیٹنگ کرنی تھی اور وہ پیڈ کر کے تیار بیٹھے تھے لیکن اسی دوران رمیز راجہ نے عمران خان سے کہا کہ ذوالقرنین اپنے کلب میچوں میں بہت چھکے مارتا ہے لہذا اسے پہلے بھیج دیں جس پر کپتان عمران خان نے ذوالقرنین کو پیڈ کرنے کی ہدایت کر دی۔

اس ایک رن کی ہر کوئی بات کرتا ہے

توصیف احمد کہتے ہیں ’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس میچ کے بعد آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ تو میں یہی کہتا ہوں آج 35 سال گزر جانے کے بعد بھی میڈیا اور عام لوگ مجھ سے بات کرتے ہیں تو وہ اسی ایک رن کی وجہ سے جو میں نے بنایا۔ عام حالات میں ایک رن پر کون بات کرتا ہے؟ حقیقت تو یہی ہے کہ اگر وہ ایک رن نہ بنتا تو آخری گیند پر چھکا کیسے لگتا؟’

توصیف احمد کہتے ہیں ’میں نے سری لنکا کے خلاف کینڈی ٹیسٹ میں نو وکٹیں لے کر پاکستان کو میچ جتوایا۔ بنگلور ٹیسٹ میں اقبال قاسم کے ساتھ میری نو وکٹیں تاریخی جیت میں کام آئیں، لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے اس بات پر کہ لوگ ان دو بڑی پرفارمنس سے زیادہ مجھے اس ایک رن کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں جو میں نے شارجہ میں بنایا۔‘

’میں گیارہ سال شارجہ میں رہا۔ اس میچ کے بعد اکثر شارجہ سٹیڈیم جانا ہوا تو وہاں کا گراؤنڈ سٹاف اور دوسرے لوگ ملتے اور مجھے وہ میچ یاد دلاتے تو خوشی ہوتی تھی۔‘

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہCourtesy K. R. Nayar

،تصویر کا کیپشن

توصیف احمد شارجہ کے میدان میں اس مقام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جہاں پر جاوید میانداد نے چھکا مارا تھا

بشری انصاری کی پیروڈی اور آٹھ درہم

اس میچ کے بعد بشری انصاری نے سلمیٰ آغا کے ایک گانے کی پیروڈی کی تھی جس کے بول تھے ‘ایک چھکے کے جاوید کو سو لاکھ ملیں گے توصیف بیچارے کو درہم آٹھ ملیں گے۔‘

توصیف احمد کہتے ہیں ’درحقیقت مجھے وہ آٹھ درہم بھی نہیں ملے تھے۔ میں یہ بات خود کو مسکین یا مظلوم بتانے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں سیدھا سادہ انسان ہوں اپنے حال میں خوش رہتا ہوں مجھے خوشی اس بات کی زیادہ تھی کہ میں جاوید میانداد جیسے عظیم کھلاڑی کے ساتھ کھیلا، وہ میرے پہلے کپتان بھی تھے۔‘

توصیف احمد بتاتے ہیں کہ اس گانے سے ملنے والی مشہوری پر انھوں نے ایک تقریب میں گانے کے بول لکھنے والے معروف مصنف انور مقصود سے کہا کہ ’آپ نے یہ گانا لکھ تو دیا ہے لیکن انکم ٹیکس والے میرے پیچھے پڑ گئے ہیں جسے سن کر وہ بہت ہنسے۔‘

شارجہ کے میدان میں میانداد نے ہاری ہوئی بازی کیسے پلٹی

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہCourtesy Anwar Ali

جاوید میانداد نے اپنی سوانح حیات ʹکٹنگ ایجʹ میں اس میچ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔

میانداد نے تسلیم کیا کہ متواتر وکٹیں گرنے کے سبب وہ ایک مرحلے پر یقین کر چکے تھے کہ پاکستان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے، حالانکہ جب وہ 39 رنز پر دوسری وکٹ گرنے کے بعد کریز پر گئے تھے تو اسوقت وہ یہ سوچ رہے تھے کہ 246 رنز کا ہدف عبور ہوسکتا ہے۔

میانداد لکھتے ہیں کہ جب عمران خان آؤٹ ہوئے تو انھوں نے سوچ لیا تھا کہ پاکستان کے جیتنے کی اب کوئی امید نہیں بچی اور اس وقت وہ ہارا ہوا میچ کھیل رہے تھے اور کوشش کر رہے تھے کہ پورے 50 اوورز تک کھیل کر شکست کا مارجن کم سے کم کر سکیں۔

میانداد کہتے ہیں جب 48 واں اوور شروع ہوا تو اس وقت انھیں پہلی بار یہ احساس ہوا کہ پاکستان یہ میچ جیت سکتا ہے۔

پاکستان کو آخری تین اوورز یعنی 18 گیندوں پر 31 رنز درکار تھے۔

میانداد نے آخری اوور کے بارے میں لکھا ہے کہ چھ گیندوں پر 11 رنز درکار تھے اور وہ میچ کو کسی صورت میں آخری گیند پر لے جانا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے سوچ رکھا تھا کہ دو چوکے ہر قیمت پر لگانے ہیں۔

یارکر جو فل ٹاس ہو گئی

جاوید میانداد کا کہنا ہےʹعقلمند بلے باز ہمیشہ بولر کا دماغ پڑھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کیا کرے گا۔‘

’مجھے پتا تھا کہ آخری گیند پر چیتن شرما یارکر کی کوشش کریں گے لہذا میں کریز سے تھوڑا سا آگے آکر کھڑا ہو گیا تھا تاکہ اگر وہ یارکر کرتے ہیں تو میں پیچھے ہٹ کر کھیل سکوں۔

’میری خوش قسمتی کہ وہ گیند یارکر کے بجائے فل ٹاس کی شکل میں مجھے مل گئی اور مجھے اسے کھیلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔’

چیتن شرما خوفزدہ تھے

چیتن شرما نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ وہ جو گیند کرنا چاہتے تھے وہ نہ ہو سکی۔

’سامنے جاوید میانداد جیسے ورلڈ کلاس بلے باز تھے جنھوں نے میرے گیند کرنے سے پہلے ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ میں یارکر کروں گا۔ میری بدقسمتی کہ وہ گیند فل ٹاس ہو گئی۔‘

چیتن شرما یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے آخری گیند کرنے سے قبل اپنا ذہن تبدیل کیا تھا کہ انھیں شارٹ پچ گیند کرنی چاہیے۔ آخری لمحے میں بولر کے لیے ذہن تبدیل کرنا صحیح نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پاس وقت بہت ہی کم ہوتا ہے۔

چیتن شرما کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر بہت زیادہ خوفزدہ تھے کیونکہ وہ اپنے ملک کے لیے یہ میچ ہارنا نہیں چاہتے تھے۔ انڈیا کے عظیم بلے باز سنیل گواسکر کہتے ہیں کہ اس آخری گیند پر چیتن شرما کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔

’کریڈٹ جاوید میانداد کو جاتا ہے جنھوں نے انتہائی ذہانت سے وہ اننگز اور خاص کر آخری گیند کھیلی تھی۔‘

بیٹ بخاطر کو تحفے میں دے دیا

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہCourtesy Javed Miandad Collection

،تصویر کا کیپشن

جاوید میانداد اور عبدالرحمان بخاطر (بائیں)

جاوید میانداد نے جس بیٹ سے تاریخی چھکا لگایا وہ انھوں نے ایک دوست کے کہنے پر شارجہ کرکٹ کے روح رواں عبدالرحمن بخاطر کو تحفے میں دے دیا تھا۔

تاہم جب ٹورنامنٹ کا آفیشل ڈنر ہوا تو عبدالرحمن بخاطر نے کہا کہ اس یادگار بیٹ کو نیلام کیا جائے گا اور اسی وقت اس کا خریدار مل گیا اور اس کی آمدن جاوید میانداد کو دے دی گئی۔

اس چھکے کے بعد جاوید میانداد کو ہر جانب سے بیش قیمتی انعامات بھی ملے جن میں مرسڈیز کار بھی شامل تھی۔

جاوید برکی کے تبصرے پر میانداد ناراض

جاوید میانداد نے اپنی کتاب میں پاکستان کے سابق کپتان جاوید برکی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جو اس میچ میں ایکسپرٹ کے طور پر ٹی وی کمنٹری باکس میں موجود تھے۔

میانداد لکھتے ہیں ’میری اس پرفارمنس پر پاکستان میں ہر کوئی خوش نہیں تھا۔ جاوید برکی نے اس اننگز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے اس اننگز کھیلتے ہوئے تیزی نہیں دکھائی اور یہ ایک ایسی پرفارمنس ہے جس میں تکنیکی طور پر نقص تھا۔’

میانداد نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ جاوید برکی کے تبصرے کو اس لیے بھی بہت زیادہ محسوس کیا گیا تھا کہ وہ ان کی اننگز سے اختلاف رکھنے والی واحد آواز تھی۔

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہCourtesy Anwar Ali

،تصویر کا کیپشن

دائیں سے بائیں: قاسم نورانی، حنیف محمد، عبدالرحمان بخاطر، آصف اقبال اور جاوید میانداد

‘ایسا لگتا تھا کہ کروڑوں پاکستانیوں میں جاوید برکی واحد شخص تھے جنھیں میری اننگز میں کوئی ایسی چیز نظر آئی جس پر وہ تنقید کرسکیں۔’

‘جذباتی ماحول میں ہر کوئی نروس تھا

اس فائنل کے آخری اوور کی کمنٹری کمنٹیٹر افتخار احمد نے کی تھی۔ وہ آج کل ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے افتخار احمد کہتے ہیں: ‘وہ ایک زبردست ماحول تھا جس میں کھلاڑی اور شائقین ہر کوئی پُرجوش بھی تھا اور نروس بھی۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ اس لمحے کی کوئی بھی بات نظر سے چوک نہ جائے لہذا میں اپنی پوری توجہ گراؤنڈ کی طرف رکھے ہوئے تھا۔

’کیونکہ کمنٹری کرتے وقت میری سوچ ہمیشہ سے یہی رہی کہ جو کچھ کیمرہ آپ کو دکھارہا ہے آپ نے وہ ماحول اور وہ جذبات سب کچھ بیان کرنا ہے۔’

کمنٹیٹر افتخار احمد کے بارے میں مشہور ہے کہ پروڈیوسر آخری اوورز کی کمنٹری کے لیے ان کا انتخاب کرتے تھے کیونکہ وہ اپنے منفرد انداز سے کمنٹری میں جان ڈال دیتے تھے۔

سنہ 1978 میں انڈیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں جب عمران خان نے بشن سنگھ بیدی کو لگاتار دو چھکے لگائے اور جاوید میانداد وکٹوں کے درمیان تیزی سے دوڑ کر پاکستان کو جیت کی طرف لے جارہے تھے تو ٹی وی کمنٹری افتخار احمد کی ہی تھی۔

پھر شارجہ میں جاوید میانداد نے پاکستان کو جیت سے ہمکنار کیا تو کمنٹری باکس سے ہوا کے دوش پر جو آواز گونجی وہ افتخار احمد کی تھی ۔

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہIqbal Munir

،تصویر کا کیپشن

دائیں سے بائیں: کمنٹیٹر افتخار احمد، کمنٹیٹر منیر حسین اور عبدالرحمان بخاطر

لوگوں کو آخری گیند سے قبل ان کا وہ جملہ آج بھی یاد ہے:

لاسٹ بال کمنگ اپ، فور رنز ریکوائرڈ، ہی ہٹ اے سکس اینڈ پاکستان ہیوو ون!’

واقعی کرکٹ کے میدان میں اپنے عروج پر پہنچ جانے والی اس سنسنی خیزی کا اس سے زیادہ خوبصورت اختتام کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.