سیکس اور رضامندی سے متعلق بدلتے خیالات جو جاپان کو ریپ قوانین میں تبدیلی لانے پر مجبور کر رہے ہیں

جاپان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

صحافی شیوری ایٹو کی تاریخی فتح نے جنسی استحصال پر قومی بحث کو تیز کرنے میں مدد کی اور قانونی اصلاحات کی راہ ہموار کی

  • مصنف, ٹیسا وونگ، ساکیکو شیراشی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹوکیو اور سنگاپور

انتباہ: اس مضمون میں ایسی تفصیلات موجود ہیں جو کچھ قارئین کو پریشان کن لگ سکتی ہیں۔

میگومی اوکانو کہتی ہیں کہ ریپ کے چند دن بعد، وہ پہلے سے ہی جانتی تھیں کہ حملہ آور آزاد ہو جائے گا۔

میگومی اس شخص کو جانتی تھیں جس نے یہ کیا تھا، اوریہ بھی کہ اسے کہاں تلاش کرنا ہے لیکن میگومی کو یہ بھی معلوم تھا کہ کوئی مقدمہ نہیں ہو گا، کیونکہ جو کچھ ہوا جاپانی حکام اسے ریپ کے طور پر نہیں دیکھیں گے۔

لہٰذا یونیورسٹی کی طالبہ نے پولیس کو اس واقعے کی اطلاع نہ دینے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’چونکہ میں اس طرح انصاف حاصل نہیں کر سکتی تھی، وہ ایک آزاد اور آسان زندگی گزارے گا۔ یہ میرے لیے تکلیف دہ ہے۔‘

لیکن تبدیلی آ سکتی ہے۔ جاپانی پارلیمان میں اب ملک میں جنسی تشدد کے قوانین میں اصلاحات کے لیے ایک تاریخی بل پر بحث جاری ہے، جو ایک صدی میں اس طرح کی دوسری ترمیم ہے۔

اس بل میں متعدد تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے، لیکن سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ قانون ساز ریپ کی تعریف کو ’جبری جنسی تعلقات‘ سے ’رضامندی کے بغیر جنسی تعلقات‘ میں تبدیل کریں گے۔

اس سے ایک ایسے معاشرے میں رضامندی کے لیے قانونی گنجائش پیدا ہو گی جہاں اس تصور کو ابھی تک بہت کم سمجھا جاتا ہے۔

جاپان کے موجودہ قانون کے مطابق ریپ کا مطلب جنسی تعلق یا غیر مہذب حرکتیں ہیں جو ’زبردستی‘ اور ’حملے یا دھمکیوں کے ذریعے‘ یا کسی شخص کی ’لاشعوری حالت یا مزاحمت کرنے میں ناکامی‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کی جاتی ہیں۔

یہ بہت سے دوسرے ممالک کے قوانین سے متصادم ہیں جو اسے زیادہ وسیع پیمانے پر رضامندی کے بغیر قائم کسی بھی جنسی تعلق یا جنسی عمل کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں، جہاں نہ کا مطلب نہ ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جاپان میں ریپ کی محدود تعریف کی وجہ سے استغاثہ اور ججوں کی جانب سے اس قانون کی مزید محدود تشریحات کی گئی ہیں، جس سے انصاف کے حصول کے لیے ایک ناممکن حد مقرر ہوئی ہے اور شکوک و شبہات کے کلچر کو فروغ ملا ہے جو زندہ بچ جانے والوں کو اپنے حملوں کی اطلاع دینے سے روکتا ہے۔

ریپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مثال کے طور پر 2014 میں ٹوکیو کے ایک کیس میں ایک شخص نے ایک 15 سالہ لڑکی کا ریپ کیا تھا اور لڑکی نے مزاحمت بھی کی تھی۔

اس شخص کو ریپ کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا کیونکہ عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اس کے اقدامات نے لڑکی کے لیے مزاحمت کرنا ’انتہائی مشکل‘ نہیں بنایا تھا۔

جاپان میں رضامندی کی عمر صرف 13 سال ہے جو دنیا کی امیر ترین جمہوریتوں میں سب سے کم ہے۔

ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کے گروپ سپرنگ کی ترجمان یو تادوکورو کا کہنا ہے کہ ’مقدمے کی سماعت کے اصل طریقہ کار اور فیصلے مختلف ہوتے ہیں، کچھ مدعا علیہان کو سزا نہیں دی جاتی، بھلے ہی ان کے اقدامات رضامندی کے بغیر ہونا ثابت ہوئے ہوں، کیوں کہ وہ ’حملے یا دھمکیوں‘ کے معاملے پر پورا نہیں اترتے تھے۔‘

یہی وجہ ہے کہ میگومی یونیورسٹی کے ایک ساتھی طالب علم کے حملے کے بعد پولیس کے پاس نہیں گئی تھیں۔

میگومی کے مطابق وہ دونوں ایک ساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے جب اس نے میگومی کی طرف جنسی پیش قدمی شروع کی، جس پر انھووں نے ’نہ‘ کہا۔

پھر اس نے حملہ کر دیا۔ میگومی کہتی ہیں کہ انھوں نے کچھ دیر تک اس شخص کے ساتھ ’ریسلنگ‘ کی پھر میگومی منجمد ہو گئیں اور مزاحمت چھوڑ دی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق حملے کی صورت میں ایسا ردعمل بعض اوقات موجودہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔

اس کے بعد کئی دنوں تک طالبہ میگومی نے قوانین اور کیس کی مثالوں کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ ’حملے اور دھمکی‘ کے عدالتی معیار پر پورا نہیں اترے گا۔

انھوں نے یہ بھی سنا تھا کہ جاپانی تحقیقات میں الٹا متاثرین کو الزام تراشی اور ’دوسری بار ریپ‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں متاثرین کو پولیس یا ہسپتال کے عملے کی بے حسی کا سامنا کرنے پر دوبارہ صدمہ پہنچتا ہے۔

میگومی کہتی ہیں کہ ’میں انصاف ملنے کی اپنی کمزور سی امید کے لیے تحقیقات کے اس عمل سے نہیں گزرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں پولیس کے پاس نہیں گئی۔ مجھے یہ بھی یقین نہیں تھا کہ میری رپورٹ قبول کی جائے گی یا نہیں۔‘

میگومی کہتی ہیں کہ اس کے بجائے وہ یونیورسٹی کے ہراسانی کاؤنسلنگ سینٹر گئیں، جس نے تحقیقات شروع کیں اور فیصلہ سنایا کہ حملہ آور نے ریپ کیا تھا۔

بی بی سی کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر مرکز نے رازداری کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

میگومی کہتی ہیں کہ جب تک تفتیش مکمل ہوئی، حملہ آور گریجویشن کر چکا تھا لہٰذا اسے وارننگ ملنے کے علاوہ بہت کم نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ’مجھے مایوسی ہوئی کہ میں اس شخص کو فوجداری طریقہ کار کے ذریعے اپنے عمل پر مناسب طریقے سے پچھتانے پر مجبور نہیں کر سکی۔‘

ریپ

،تصویر کا ذریعہBBC NEWS / TESSA WONG

،تصویر کا کیپشن

میگومی اوکانو کہتی ہیں کہ ریپ کے چند دن بعد، وہ پہلے سے ہی جانتی تھیں کہ حملہ آور آزاد ہو جائے گا

تبدیلی کے لیے دباؤ

میگومی اکیلی نہیں ہیں۔ جاپان میں ریپ کے طور پر تسلیم کیے جانے والے صرف ایک تہائی کیسز کے نتیجے میں قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے، جو عام فوجداری استغاثہ کی شرح سے قدرے کم ہے۔

لیکن تبدیلی کے لیے عوامی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

سنہ 2019 میں جاپانی عوام اس وقت مشتعل ہو گئے تھے جب ایک ماہ کے اندر جنسی حملوں کے چار مقدمات سامنے آئے تھے جن میں سے ہر ایک کے نتیجے میں مبینہ حملہ آور کو بری کر دیا گیا تھا۔

فوکواوکا کے ایک معاملے میں، ایک مرد نے ایک ایسی عورت کے ساتھ سیکس کیا تھا جو نشے میں تھی۔ جسے دوسری جگہوں پر جنسی حملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ خاتون نے پہلی بار ایک ریستوراں میں شراب نوشی کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق اس شخص کا کہنا تھا کہ اس کا خیال تھا کہ ’مرد اس تقریب میں آسانی سے جنسی برتاؤ کر سکتے ہیں‘ جو اس کی جنسی اجازت کے لیے جانا جاتا ہے اور اس واقعے کے عینی شاہدین نے اسے نہیں روکا۔

انھوں نے یہ بھی فرض کیا کہ خاتون نے رضامندی دی تھی کیونکہ جنسی تعلقات کے دوران ایک موقع پر اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں اور ’شور مچایا تھا۔‘

ناگویا کے ایک اور معاملے میں جہاں ایک باپ نے کئی سالوں سے اپنی نوعمر بیٹی کے ساتھ بار بار جنسی تعلقات قائم کیے عدالت نے شک ظاہر کیا کہ اس نے اپنی بیٹی پر ’مکمل طور پر غلبہ‘ حاصل کیا تھا کیونکہ وہ سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے والدین کی خواہش کے خلاف گئی تھی حالانکہ ایک ماہر نفسیات نے گواہی دی تھی کہ وہ عام طور پر اپنے والد کی مزاحمت کرنے سے قاصر تھی۔

عوام کے احتجاج کے بعد ان میں سے زیادہ تر مقدمات پر دوبارہ مقدمہ چلایا گیا اور حملہ آوروں کو قصوروار پایا گیا۔

ریپ کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے ایک ملک گیر مہم جسے فلاور ڈیمو کے نام سے جانا جاتا ہے کا آغاز کیا گیا تھا۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ می ٹو #MeToo کی بڑھتی ہوئی تحریک اور صحافی شیوری ایٹو کی تاریخی فتح نے جنسی استحصال پر قومی بحث کو تیز کرنے میں مدد کی اور قانونی اصلاحات کی راہ ہموار کی۔

ریپ کی ازسرنو تعریف کے ایک حصے کے طور پر نئے قانون میں واضح طور پر آٹھ منظرنامے بیان کیے گئے ہیں جہاں متاثرہ خاتون کے لیے اس بات کا اظہار کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے رضا مند نہیں ہے۔

ان میں ایسے حالات شامل ہیں جہاں متاثرہ شخص شراب یا منشیات کے نشے میں ہے۔ یا تشدد یا دھمکیوں کے تابع ہے یا ’خوفزدہ یا صدمے‘ میں ہے۔

ایک اور منظرِ نامہ طاقت کے غلط استعمال کی وضاحت کرتا ہے جہاں متاثرہ شخص ’فکرمند‘ ہے کہ اگر انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو انھیں نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جنسی تعلق کے لیے رضامندی کی عمر بھی بڑھ کر 16 سال ہو جائے گی اور حدود کے قانون میں توسیع کی جائے گی۔

کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حوالے سے مزید وضاحت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بہت مبہم الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔

انھیں یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ تبدیلی استغاثہ کے لیے الزامات ثابت کرنا مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے قانون کو مزید بڑھایا جانا چاہیے اور یہ کہ ایسی متاثرہ خواتین کے لیے زیادہ تحفظ ہونا چاہیے جو نابالغ ہیں۔

تاہم اگر یہ اصلاحات منظور ہو جاتی ہیں تو یہ ان لوگوں کی فتح ہوگی جو طویل عرصے سے تبدیلی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

ٹوکیو میں قائم ہیومن رائٹس ناؤ کے نائب صدر کازوکو ایٹو کہتے ہیں ’حقیقیت یہ ہے کہ وہ اس قانون کے عنوان کو بھی تبدیل کر رہے ہیں، ہم امید کر رہے ہیں کہ لوگ جاپان میں اس بحث کا آغاز کریں گے: رضامندی کیا ہے؟ رضامندی نہ دینے کا کیا مطلب ہے؟‘

لیکن وقت ختم ہو رہا ہے۔ جاپان کی پارلیمان ڈائٹ کے ایوان بالا کو 21 جون تک اس نئے قانون کو منظور کرنا ہو گا لیکن اس وقت یہ امیگریشن کے معاملے پر بحث میں الجھا ہوا ہے۔

اس ڈیڈ لائن کو ختم کرنے سے ریپ کی اصلاحات غیر یقینی صورتحال میں ڈال دی جائیں گی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے گذشتہ ہفتے تاخیر کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی اور قانون سازوں سے فوری طور پر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

women

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جاپان میں اب بھی کئی خواتین ریپ کے معاملات کو رپورٹ نہیں کرتیں

سیکس کے خیالات کو نئی شکل دینا

تاہم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصلاحات اس مسئلے کے صرف ایک حصے کا حل ہیں جن کی تبدیلی کا مطالبہ کمرہ عدالت سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔

جاپان میں جنسی حملہ اب بھی ایک ممنوع موضوع ہے اور حالیہ برسوں میں شیوری ایٹو کی عدالتی لڑائی، سیلف ڈیفنس فورس کی سابق رکن اور ریپ سے متاثرہ رینا گونوئی کے عوامی بیانات اور جانی کٹاگاوا کے انکشاف جیسے ہائی پروفائل مقدمات کے تناظر میں قومی توجہ حاصل کی ہے۔

کازوکو ایٹو کا کہنا ہے کہ مسئلے کا ایک حصہ یہ ہے کہ جاپانی نسلیں ’سیکس اور رضامندی سے ہونے والے سیکس کے مسخ شدہ تصور‘ کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔

ایک طرف، ڈھکے چھپے اور معمولی انداز میں سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے اور رضامندی کے بارے میں شاید بات کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود جاپانی بچوں کو فحش مواد تک آسان رسائی حاصل ہے جہاں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایک عورت اپنی مرضی کے خلاف جنسی تعلقات سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

وکیل اور انسانی حقوق کی وکیل ساکورا کامیتانی کہتی ہیں کہ جاپان کو ریپ کے متاثرین کے لیے مزید مالی اور نفسیاتی مدد فراہم کرنی چاہیے۔

لیکن حملہ آوروں کو بھی مدد ملنی چاہیے، وہ کہتی ہیں۔ ’جنسی جرائم کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ ہمیں اس کی روک تھام پر توجہ دینی چاہیے، ورنہ زیادہ سے زیادہ متاثرین ہوں گے۔‘

لیکن کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے اہم کام یہ یقینی بنانا ہے کہ اصلاحات منظور اور نافذ کی جائیں اور متاثرین کو کیسز کی اطلاع دینے کی ترغیب دی جائے۔

ایٹو کہتی ہیں ’اگر یہ ایک سطحی تبدیلی بن جاتی ہے اور اصل میں متاثرین کو نہیں بچاتی ہے، تو یہ لوگوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔‘

میگومی کا کہنا ہے کہ اگر قانون میں تبدیلی آتی ہے تو خود پر ہونے والے حملے کی اطلاع پولیس کو دینے پر غور کریں گی لیکن فوری طور پر نہیں۔

’میں اپنے احساسات کو کسی حد تک دبانے میں کامیاب ہو چکی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ خود کو ’پہلے پینگوئن‘ کی اس سنگین پوزیشن میں ڈالنا بہت مشکل ہے،‘ انھوں نے جاپانی اصطلاح کا استعمال کیا جس کا مطلب ہے وہ پہلا شخص جو خود کو کسی نئی چیز میں ڈالتا ہے۔

اس کے بجائے میگومی جنسی حملوں سے بچ جانے والوں اور جنسی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مہم چلانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، اور ان گروہوں کی مدد کے لیے ایک قانونی فرم شروع کرنا چاہتی ہے۔

’مجھے کچھ امید نظر آ رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہم جس موجودہ صورتحال میں ہیں وہ مسخ شدہ اور غلط ہے۔‘

’میں سمجھتی ہوں کہ اگر سب مل کر کام کریں تو چیزیں ہمارے خیال سے کہیں زیادہ تیزی سے اور نمایاں طور پر تبدیل ہوں گی۔ میرا پیغام سب کے لیے ہے۔‘

’اگر آپ کو لگتا ہے کہ کچھ غلط ہے، تو آئیے مل کر اسے تبدیل کریں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ