’سیوج کے پانی میں کاشت‘: چینی لہسن جسے امریکہ میں ’ملکی سلامتی کا خطرہ‘ قرار دیا جا رہا ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ میں چینی لہسن کی درآمد کے حوالے سے تشویش پائی جا رہی ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
امریکی سینیٹر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چین سے لہسن کی درآمد کے قومی سلامتی پر اثرات کی تحقیقات کی جائیں۔
ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر رک سکاٹ نے وزیر تجارت کو خط لکھ کر دعویٰ کیا ہے کہ چینی لہسن غیر محفوظ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ لہسن گندے طریقوں سے اگایا جاتا ہے۔
چین لہسن کا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور امریکہ اس کا سب سے بڑا صارف ہے۔تاہم یہ امریکہ اور چین کے درمیان اس کی تجارت کئی سالوں سے تنازعات کا شکار رہی ہے۔
امریکہ چین پر الزام لگاتا رہا ہے کہ چین بہت کم قیمت پر امریکہ میں لہسن فروخت کر رہا ہے۔
سنہ 1990 کی دہائی کے وسط سے امریکہ نے بہت سے چینی اشیا پر بھاری محصولات یا ٹیکس عائد کیے ہیں تاکہ امریکی کاشتکاروں کو مارکیٹ میں کم قیمت اشیا کے اثرات سے بچایا جا سکے۔
سنہ 2019 میں ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں اس ٹیرف میں مزید اضافہ کیا گیا تھا۔
سینیٹر کا کیا دعویٰ ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی سینیٹر نے اپنے خط میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بیرون ملک میں اگائے جانے والے لہسن، خاص طور پر کمیونسٹ چین میں اگائے جانے والے لہسن کے معیار کے حوالے سے امریکی عوام کی صحت کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔‘
خط میں انھوں نے ان طریقوں کے بارے میں دعویٰ کیا ہے جن کے ذریعے لہسن اگایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اگانے کا طریقہ ریکارڈ کیا جاتا ہے جس میں آن لائن ویڈیوز، کوکنگ بلاگز اور دستاویزی فلمیں شامل ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک امریکی سینیٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ لہسن سیویج کے پانی میں اگایا جا رہا ہے۔
انھوں نے وزارت تجارت سے اس پر کارروائی کرنے کو کہا ہے۔ انھوں نے اس قانون کے تحت تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں کسی خاص چیز کی درآمد سے امریکی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ سینیٹر سکاٹ نے لہسن کی مختلف اقسام کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور کہا کہ ان کو بھی دیکھنا چاہیے۔
انھوں نے خط میں لکھا کہ لہسن کی تمام اقسام بشمول پوری یا لونگ، چھلے ہوئے تازہ، فروزن، پانی میں پیک یا دیگر چیزوں کی نگرانی کی جانی چاہیے۔
سائنسدان کیا کہتے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی سینیٹر کا استدلال ہے کہ ’یہ فوڈ سیفٹی اور سکیورٹی کے حوالے سے ایک ہنگامی صورتحال ہے جو ہماری قومی سلامتی، صحت عامہ اور معاشی خوشحالی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘
کیوبک کی میک گل یونیورسٹی میں سائنس اور سوسائٹی کے دفتر جو سائنسی مسائل سے نمٹتا ہے کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چین میں لہسن اگانے کے لیے سیویج کے پانی کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
سال 2017 میں یونیورسٹی نے ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’انسانی فضلے کو بطور کھاد استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
’انسانی فضلہ بھی جانوروں کے فضلے کی طرح ایک مؤثر کھاد کے طور پر کام کرتا ہے۔ کھیتوں میں انسانی فضلہ پھینک کر فصلیں اگانا اچھا نہیں لگتا، لیکن یہ آپ کے سوچ سے زیادہ محفوظ ہے۔‘
Comments are closed.