سکندر فتح کے بعد ساری زمین پورس کو لوٹا کر واپس کیوں چلا گیا؟
- مصنف, ریحان فضل
- عہدہ, بی بی سی ہندی، نئی دہلی
یونانی فلسفی اور مورخ پلوٹارک نے سکندر کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا رنگ تو گورا تھا لیکن چہرہ سرخی مائل تھا۔
سکندر کا قد ایک عام مقدونیائی کے مقابلے میں چھوٹا تھا لیکن میدان جنگ میں ان کے قد کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا۔ سکندر داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ اس کے رخسار پتلے تھے، جبڑا چوکور تھا اور ان کی آنکھیں شدید عزم کی عکاس تھیں۔
مارکس کرٹیئس نے سکندر پر کتاب ‘ہسٹری آف الیگزینڈر’ میں لکھا ہے کہ ‘سکندر کے بال سنہرے اور گھنگریالے تھے۔ اس کی دونوں آنکھوں کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس کی بائیں آنکھ سرمئی اور دائیں کالی تھی۔
’اس کی آنکھوں میں اتنی طاقت تھی کہ سامنے والے اسے دیکھ کر ہی گھبرا جاتے تھے۔ سکندر ہمیشہ ہومر کی کتاب ‘دی ایلیڈ آف دی کاسکیٹ’ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ سوتے وقت بھی اسے اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا۔‘
پلوٹارک سکندر کی سوانح حیات ‘دی لائف آف الیگزینڈر دی گریٹ’ میں لکھتے ہیں کہ ‘سکندر نے کبھی بھی جسم کی لذتوں میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، جب کہ دوسرے معاملات میں اس سے زیادہ باہمت اور نڈر کم لوگ ہوئے ہوں گے۔ بچپن سے ہی انھوں نے عورتوں کے متعلق احترام کا اظہار کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب غلام لڑکیوں، داشتہ اور یہاں تک کہ بیویوں کو ذاتی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔’
وہ لکھتے ہیں: ‘سکندر کی ماں اولمپیا سکندر کی لڑکیوں میں دلچسپی نہ لینے سے اس قدر پریشان ہو گئیں کہ انھوں نے مخالف جنس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ایک خوبصورت درباری طوائف کالیکزینا کی خدمات حاصل کیں، لیکن سکندر پر اس خاتون کا کوئی اثر نہ ہوا۔
’بعد میں سکندر نے خود اقرار کیا کہ سیکس اور نیند انھیں ہمیشہ یہ یاد دلاتے کہ ان کا جسم فانی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہMODERN LIBRARY NEW YORK
23 سال کی عمر میں دنیا کو فتح کرنے کی مہم
23 سالہ شہزادہ سکندر نے 334 قبل مسیح میں یونان کے شہر مقدونیہ سے دنیا کو فتح کرنے کی اپنی مہم کا آغاز کیا۔
سکندر کی فوج میں ایک لاکھ سپاہی تھے جو دس ہزار میل کا سفر طے کر کے ایران کے راستے دریائے سندھ کے کنارے پہنچے۔
326 قبل مسیح کے اوائل میں، جب سکندر ایران میں تھے تو انھوں نے ایران کے نزدیک ہندوستانی شہروں کے بادشاہوں کے پاس قاصد بھیجے اور ان سے کہا کہ وہ ان کی ماتحتی قبول کریں۔
سکندر جیسے ہی کابل کی وادی میں پہنچے، بادشاہ اس سے ملنے پہنچنے لگے۔ ان میں سے ایک ہندوستانی شہر تکشلا (ٹیکسلا) کا حکمران ابھی بھی تھا۔
سکندر کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے سکندر کو 65 ہاتھی کا نذرانہ پیش کیا تاکہ وہ انھیں اپنی آنے والی مہم میں استعمال کر سکیں۔
تکشلا کا بادشادہ امبھی سکندر کی اتنی خاطر تواضع اس لیے کر رہا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ سکندر اس کے دشمن پورس کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دے۔
تمام بادشاہوں کو شکست دے کر دریائے سندھ کا رخ
مارکس کرٹیئس لکھتے ہیں کہ اس نے ’دانستہ طور پر سکندر کے لیے ہندوستان کے دروازے کھول دیے تھے۔ اس نے سکندر کی فوج کو اناج کے ساتھ ساتھ 5000 ہندوستانی سپاہیوں اور 65 ہاتھیوں پیش کیے۔ ان کا نوجوان جنرل سینڈروکپتوس بھی سکندر کے ساتھ شامل ہو گیا۔’
سکندر نے تکشلا میں دو مہینے گزارے اور وہاں کے بادشاہ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
سکندر کے سوانح نگار فلپ فری مین اپنی کتاب ‘الیگزینڈر دی گریٹ’ میں لکھتے ہیں: ‘اس موڑ پر سکندر نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ انھوں نے ہیپیسٹیئن کی قیادت میں ایک بڑی فوج درہ خیبر کے اس پار بھیجی تاکہ وہ راستے میں آنے والے قبائلی باغیوں کو کچل دے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جلد از جلد دریائے سندھ تک پہنچ کر ایک پل بنائے تاکہ سکندر کی فوج دریا کو عبور کر سکے۔
وہ لکھتے ہیں: ‘اس راستے پر بہت سے ہندوستانی بادشاہ اور انجیینئرز کی ایک بڑی تعداد سکندر کی فوج کے ساتھ چل رہی تھی۔ سکندر نے ایک گھماؤ دار راستہ اختیار کیا اور ہندوکش کے مشرق کا رخ کیا تاکہ وہ اس طرف رہنے والے قبائلیوں کو کنٹرول کر سکے۔’
جب ایک تیر سکندر کے بازو پر لگا
ایسے تمام بادشاہ جو سکندر کے راستے میں آئے اور ہتھیار نہیں ڈالے سکندر نے ان تمام کے قلعوں پر قبضہ کر لیا۔
ایک جگہ قبائلی باغیوں نے سکندر کی فوج پر گھات لگا کر حملہ کیا اور اس مہم کے دوران ایک تیر سکندر کے بازو پر لگا۔ اس وقت وہ شام کو آرام کرنے کے لیے کیمپ لگا رہے تھے۔
سکندر کے سپاہیوں نے قریبی پہاڑی پر چڑھ کر اپنی جان بچائی۔
حملہ آوروں کا خیال تھا کہ سکندر فرار ہو گیا ہے لیکن سپاہی پہاڑی سے نیچے اترے اور اچانک ان پر جوابی حملہ کر دیا۔ باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
سکندر نے اس شرط پر ان کی جان بخشی کہ وہ ان کی فوج میں شامل ہو جائیں۔ پہلے تو وہ راضی ہو گئے لیکن جب کچھ سپاہیوں نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو سکندر نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔
سکندر جب بزیرہ شہر پہنچے تو انھوں نے پایا کہ وہاں کے تمام سپاہی اور شہری شہر چھوڑ کر اورنس نامی پہاڑی پر چڑھ گئے ہیں۔
اس پہاڑی کے چاروں طرف گہری کھائی تھی اور اوپر پہنچنے کا ایک ہی راستہ تھا۔ اوپر ایک ہموار میدان تھا جہاں اناج زیادہ مقدار میں اگایا جا سکتا تھا۔ وہاں پانی کا بھی معقول انتظام تھا۔
سکندر کے مقامی گائیڈ نے انھیں بتایا کہ ہرکولس بھی اس پہاڑی پر چڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ سکندر نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔
مخالفین کو اونچائی کا فائدہ ملنے کے باوجود سکندر کے سپاہی لڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔
اس حملے سے حیران ہو کر بزیرہ نگر کے سپاہیوں نے اگلے دن ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی۔
انھوں نے رات کو فرار ہونے کی کوشش کی لیکن سکندر اس کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ انھوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ کھائیوں میں گرنے سے کئی لوگ مر گئے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پورس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا
سکندر کی فوج کو دریائے سندھ تک پہنچنے میں 20 دن لگ گئے۔ وہاں تکشلا کے بادشاہ نے دریائے سندھ پر کشتیوں سے پل بنانے میں ان کی مدد کی۔
دریائے سندھ کے کنارے رہنے والے لوگ جانتے تھے کہ دریا کے بہاؤ کے متوازی لکڑی کی کشتیوں کو جوڑ کر دریا پر پل بنایا جا سکتا ہے۔
سکندر کے جاسوسوں نے اطلاع دی کہ پورس کے پاس ایک بڑی فوج ہے جس میں بہت بڑے بڑے ہاتھی شامل ہیں۔
سکندر کا خیال تھا کہ وہ پورس کی فوج کو شکست دے سکتا ہے لیکن مون سون کے شروع ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سکندر کی فوج کو بارش میں لڑنے کا تجربہ ضرور تھا لیکن انھیں شدید گرمی کا بھی سامنا تھا۔
اس لیے وہاں سے اس نے پورس کو پیغام بھیجا کہ وہ سرحد پر آئے اور ان کی اطاعت قبول کرے۔
پورس نے جواب دیا کہ وہ سکندر کی اطاعت قبول نہیں کرے گا لیکن وہ ان سے اپنی سلطنت کی سرحد پر ملنے کو تیار ہے۔
سکندر کی فوج نے طوفان کے درمیان دریائے جہلم کو عبور کیا
سکندر اور ان کے سپاہی کئی دنوں تک مارچ کرتے ہوئے دریائے جہلم کے قریب پہنچ گئے۔ پورس کی فوج جہلم کی دوسری طرف تھی۔ سکندر نے دریا کے شمالی کنارے پر ڈیرہ ڈالا۔ وہ ایسی جگہ تلاش میں تھے کہ جہاں سے پورس انھیں دریا پار کرتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
پورس کو دھوکہ دینے کے لیے انھوں نے اپنی فوج کو دریا کے کنارے بہت پیچھے بھیج دیا۔
سکندر نے اپنے سپاہیوں کو ایک جگہ نہیں رکھا۔ کبھی مغرب کی طرف لے جاتے اور کبھی مشرق کی طرف۔ اس دوران انھوں نے دریا کے کنارے الاؤ جلایا اور خوب شور مچانا شروع کردیا۔ دریا کے دوسری طرف پورس کے سپاہیوں کو سکندر کے سپاہیوں کی نقل و حرکت کی عادت پڑ گئی اور انھوں نے ان پر کڑی نظر رکھنا چھوڑ دیا۔
سکندر کی فوج کے برعکس پورس کی فوج ایک جگہ ہی رہی کیونکہ ہاتھی سب سے آگے تعینات تھے اور انھیں بار بار ادھر ادھر منتقل کرنا بہت مشکل تھا۔
سکندر نے یہ بھی حکم دیا کہ آس پاس کے کھیتوں سے اناج اس کے کیمپ میں لایا جائے۔ پورس کے جاسوسوں نے جب یہ خبر دی تو پورس نے اس کا مطلب یہ لیا کہ سکندر نے مانسون کے اختتام تک وہاں رہنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
اسی دوران وہان زور دار آندھی اور طوفان آیا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکندر نے اپنے سپاہیوں کو دریا پار کروا دیا۔ تاہم اس کوشش میں آسمانی بجلی گرنے سے سکندر کے کئی سپاہی ہلاک ہو گئے۔
پورس کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے سکندر کے فوجیوں کو دریا پار کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اگرچہ پورس ایک بہادر اور قابل جنرل تھا لیکن اس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ سکندر کے تربیت یافتہ سپاہیوں کا سامنا کیسے کیا جائے۔
پورس کی ہاتھی کی آنکھ کو نشانہ بنانے کی چال
پورس کے حق میں ایک ہی بات تھی کہ اس کی فوج میں ہاتھی بہت تھے۔
فلپ فری مین لکھتے ہیں: ‘لیکن اس وقت تک سکندر کے سپاہیوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ ہاتھیوں سے کیسے لڑنا ہے۔ سکندر کے سپاہی ہاتھی کو گھیر کر اس پر نیزوں سے حملہ کر دیتے۔ اسی دوران ایک تیر انداز ہاتھی کی آنکھ پر نشانہ لگاتا۔ جیسے ہی ہاتھی کی آنکھ میں تیر لگتا، وہ بے قابو ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگتا اور اپنے ہی لوگوں کو کچل ڈالتا۔
‘سکندر نے اپنے سپاہیوں کو پورس کے سپاہیوں کے بائیں اور دائیں طرف بھیجا اور ان سے کہا کہ وہ آگے بڑھ کر پورس کے سپاہیوں پر پیچھے سے حملہ کریں۔ اس شدید لڑائی میں دونوں طرف کے بہت سے فوجی مارے گئے اور بڑی تعداد میں دوسرے لوگ بھی مارے گئے۔’
انھوں نے مزید لکھا کہ ‘یہ جنگ پنجاب میں جلال پور کے مقام پر دریائے جہلم کے کنارے ہوئی۔ سکندر اپنے گھوڑے بوسیفلس پر سوار تھے، پھر ایک تیر گھوڑے کو لگا اور وہ وہیں گر گیا، سکندر کو اپنے گھوڑے کی موت پر غم منانے کا وقت بھی نہ ملا۔ اس نے ایک اور گھوڑا لیا اور جنگ جاری رکھی۔ جیسے ہی پورس کے سپاہی دباؤ میں آئے، سکندر کے سپاہیوں نے پیچھے سے آ کر ان پر حملہ کر دیا اور ان کے فرار کا راستہ بند کر دیا۔’
پورس کو قید کر لیا گیا
لیکن پورس، ایک بہت بڑے ہاتھی پر سوار ہو کر لڑتا رہا۔ اس کی ہمت کو سراہتے ہوئے سکندر نے اسے پیغام بھیجا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دے تو اس کی جان بچ جائے گی۔ اس قاصد کا نام اومافس تھا۔
پورس نے اپنے نیزے سے قاصد کو مارنے کی کوشش کی۔ پھر سکندر نے پورس کے پاس ایک اور قاصد بھیجا۔ اس نے پورس کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا۔
فلپ فری مین لکھتے ہیں: ‘جب دونوں بادشاہوں کی ملاقات ہوئی تو پورس کے ہاتھی نے زخمی ہونے کے باوجود اسے گھٹنوں کے بل نیچے اترنے میں مدد کی۔ سکندر پورس کی چھ فٹ لمبی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ پکڑے جانے کے بعد سکندر نے پورس سے پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ پورس نے فوراً جواب دیا کہ ‘جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کیا کرتا ہے۔’
سکندر نے پورس کو مرہم پٹی کے لیے میدان جنگ سے جانے کی اجازت دے دی۔ کچھ دنوں بعد انھوں نے نہ صرف پورس سے جیتی ہوئی سرزمین انھیں لوٹا دی بلکہ آس پاس کی کچھ اضافی زمینیں بھی انھیں عطا کر دیں۔ سکندر کے معاونین نے اسے پسند نہیں کیا۔’
اسی دوران سکندر کی فوج نے اپنے مقتول سپاہیوں کی آخری رسومات ادا کیں۔ اپنے مقتول گھوڑے کی یاد میں سکندر نے میدان جنگ کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی اور اس کا نام اپنے گھوڑے کے نام پر بوسیفلس رکھا۔
سکندر کے سوانح نگار پلوٹارک لکھتے ہیں کہ ‘جب تک پورس لڑنے کی پوزیشن میں تھا اس نے سکندر کا زبردست مقابلہ کیا۔’
فوجیوں کا مقدونیہ واپس جانے پر اصرار
سکندر اس سے آگے گنگا کے ساحل تک جانا چاہتے تھے لیکن ان کے سپاہی پس و پیش کا شکار تھے۔
ایک بوڑھے سپاہی نے پوری فوج کی طرف سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم ہر قسم کے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے آپ کے ساتھ یہاں تک پہنچے۔ لیکن اب ہم تھک چکے ہیں اور ہماری ہمت جواب دی چکی ہے۔
‘ہمارے بہت سے ساتھی اس دوران میدان جنگ میں ختم ہو گئے اور جو ابھی تک زندہ ہیں ان کے جسموں پر اس مہم کے نشانات ہیں۔ ان کے کپڑے بھی کب کے تار تار ہو گئے ہیں۔ انھیں اب اپنے آرمر کے نیچے ایرانی اور ہندوستانی کپڑے پہننے پڑ رہے ہیں۔
‘ہم اپنے والدین کو دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو دوبارہ گلے لگانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم سب واپس میسیڈونیا جائیں۔ اس کے بعد آپ ایک بار پھر نئی نسل کے ساتھ ایک اور مہم پر نکل جائیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم اب اس سے آگے نہیں جا سکتے۔’
سکندر کی واپسی
جیسے ہی بوڑھے سپاہی نے بات ختم کی تمام سپاہیوں نے تالیاں بجا کر اس کی بات کی تائید کی لیکن سکندر کو اس کی بات پسند نہیں آئی۔
سکندر غصے سے اٹھا اور اپنے خیمے کی طرف چلا گیا۔ انھوں نے تین دن تک اپنے کسی قریبی ساتھی سے بات نہیں کی۔
وہ انتظار کرتے رہے ان کے سپاہی ان کے پاس آئیں اور انھیں منائیں اور معافی مانگیں لیکن اس بار کوئی ان کے پاس نہیں پہنچا۔
آخر کار سکندر کو یہ ماننا پڑا کہ ان کا دریائے گنگا تک پہنچنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
پھر انھوں نے اپنے تمام سپاہیوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ وہ اپنے گھر واپس جا رہے ہیں۔
اس نے مشرق کی جانب ایک اداس نظر ڈالی اور اپنے ملک مقدونیہ کی طرف واپس چل پڑے۔
Comments are closed.