جمعرات 24؍ربیع الثانی 1445ھ9؍نومبر 2023ء

سپریم کورٹ کے پاس تاحیات نااہلی کااختیار کہاں ہے : چیف جسٹس

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ضروری سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس تاحیات نااہلی کااختیار کہاں ہے، میں کہتا ہوں کہ منافق کافر سے برا ہوتا ہے، اپنے اوپر صادق اورامین کی شقیں کیوں نافذ نہیں کیں۔

تفصیلات کے مطابق آئینی ترمیمیں بھی توگن پوائنٹ پرہوتی رہیں، ان لوگوں نے سوچا ہوگا آدھی جمہوریت آجائے پوری جمہوریت سے تو بہتر ہے۔

تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ  فوجی آمر کے سامنے یہاں کوئی بات نہیں کرتا ملٹری ڈکٹیٹر کے سامنے بات ہی نہیں کرتے۔

ذرائع کہ مطابق انہوں نے کہا جتنی بھی حقارت سے دیکھیں گے، اراکین پارلیمنٹ ہمارے نمائندے ہیں، ڈکٹیٹر کو ہم چھو بھی نہیں سکتے۔ یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے326 لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟کہ 326افراد قانون بناتے ہیں ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے اورسب کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے۔ 

جسٹس سید منصور علی شاہ  نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق ہی سزادی جاسکتی ہے اب الیکشن ایکٹ2017میں ترمیم کر کے نااہلی کی مدت پانچ سال کردی گئی ہے۔ 

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا ہے کہ کیا عدالت آئین میں ترمیم کرسکتی ہے، کیا آئینی شق کی تشریح کے لئے ہماری دانش زیادہ ہے یا پارلیمنٹ کی دانش زیاد ہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرنے کہا ہے کہ کسی نے بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232(2)کو چیلنج نہیں کیا۔

جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ کیا کوئی ایسی شق اس جج کے لئے بھی ہے جو دوسروں کو نااہل کرتا ہے وہ خود بھی ان شرائط پر پورااترتا ہے کہ نہیں۔

 چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل62-1(f)کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

 سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے بتایا کہ ہم نے فیصل صدیقی،عزیز کرامت بھنڈاری اورریما عمر کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا تاہم ریما عمر خود نہیں آئیں اورانہوں نے تحریری طور پر کچھ بھجوایا ہے۔

درخواست گزار فیاض احمد خان اور سجاد الحسن کے وکیل بیرسٹر خرم رضا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرا اعتراض ہے کہ یہ کاروائی کس قانون کے تحت چلائی جارہی ہے۔ 

اس پر چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ اپنا کیس چلائیں، مہربانی کرکے اپنا کیس چلائیں۔ خرم رضا کا کہنا تھا کہ عدالتیں ڈیکلریشن دینے کا اختیار رکھتی ہیں، 2017 میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جب حقائق تسلیم شدہ ہوں ڈیکلریشن دیاجا سکتا ہے، ڈکلیئریشن صرف الیکشن ٹربیونل ہی دے سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا ڈکلیئریشن شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد دی جائے گی یا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ شواہد ریکارڈکیئے بغیر بھی ڈکلیئریشن دے سکتی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ٹربیونل کے پاس سپریم کورٹ کے اخیتارات بھی ہوتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے خرم رضا کوہدایت کی کہ آرٹیکل 175-ایک اورآرٹیکل 175دو پڑھیں، اس میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اورقانون میں درج دیگر عدالتیں شامل ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آرٹیکل 62-1(f)کورٹ آف لاء کہتا ہے نہ کہ سپریم کورٹ۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق ہی اپنے اختیارات استعمال کرے گا۔ روپا یا الیکشن ایکٹ دکھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 225کی موجودگی میں کیسے سپریم کورٹ براہ راست کسی کو آرٹیکل 62-1(f)کے تحت تاحیات نااہل قراردے سکتی ہے۔ 

خرم رضا کا کہنا تھا کہ میں صرف الیکشن ٹربیونل کی جانب سے نااہل ہونے والوں کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل کرنے کی حمایت کرتا ہوں۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلہ میں تاحیات نااہلی کی شق شامل کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضروری سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس تاحیات نااہلی کااختیار کہاں ہے۔ 

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیاالیکشن ٹربیونل آرٹیکل 63کے علاوہ کسی اوردفعہ کے تحت نااہل کرسکتا ہے۔ وکیل خرم رضا کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں آرٹیکل 62اور63کا آپس میںکوئی تعلق نہیں۔ 

چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ جلد ی کریں ہم نہیں چاہتے کہ اس معاملہ کو حل کئے بغیر چھوڑیں۔جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ کہاں سے یہ پاور لی گئی ہے کہ کسی شخص کو تاحیات نااہل کریں۔ 

ذرائع کہ مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اسلام میں توبہ، راہ راست پرآنے اورصراط مستقیم پر آنے کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ 

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں الیکشن لڑنے کے لئے 25سال سے کم عمر کاتعین کرنے کے لئے آئینی ترمیم درکار ہو گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا عدالت آئین میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اس پر وکیل خرم رضا کا کہنا تھا کہ عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔ 

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہی سزادی جاسکتی ہے اب الیکشن ایکٹ2017میں ترمیم کر کے نااہلی کی مدت پانچ سال کردی گئی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62میں ای، ایف جی کی شقیں ایک ڈکٹیٹر کی جانب سے شامل کی گئیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 326افراد قانون بناتے ہیں ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے اورسب کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے، ایک ڈکٹیٹر نے کچھ شامل کردیا دوسرے نے کچھ شامل کردیا اورتیسرے ڈکٹیٹر نے صادق اورامین کی شقیںشامل کردیں۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں کہتا ہوں کہ منافق کافر سے برا ہوتا ہے، اپنے اوپر صادق اورامین کی شقیںاپنے اوپر کیوں نافذ نہیں کیں۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیمیں بھی توگن پوائنٹ پرہوتی رہیں،ان لوگوں نے سوچا ہوگا آدھی جمہوریت آ جائے پوری جمہوریت سے تو بہتر ہے، فوجی آمر کے سامنے یہاں کوئی بات نہیں کرتا ملٹری ڈکٹیٹر کے سامنے بات ہی نہیں کرتے۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلہ ذہنی اختراع ہے اس کا آئین سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کسی نے بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232(2)کو چیلنج نہیں کیا۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کلیرٹی چاہتے ہیںاورریٹرننگ افسران کو کلیرٹی دینا چاہتے ہیں کہ کاغذات نامزدگی کی منظوری کے لئے  سیکشن 232(2)پر عمل ہو گا یاسمیع اللہ بلوچ فیصلے پر عمل ہو گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا آئینی شق کی تشریح کے لئے ہماری دانش زیادہ ہے یا پارلیمنٹ کی دانش زیاد ہ ہے۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کیسے ڈیکلریشن دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کو یہ حق کیسے حاصل ہوا، کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 62 ایف کا براہ راست کورٹ آف لا کے اختیار کا استعمال کر سکتی ہے، کیا الیکشن ٹربیونل کیا تاحیات نااہل بھی کر سکتا ہے، بجلی بل نادہندہ ہو یا بینک ڈیفالٹ ہو تو نااہلی ہو سکتی ہے، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی یہ کہاں لکھا ہوا ہے، نااہلی تاحیات کا اصول توسمیع اللہ بلوچ کیس میں طے کیا گیا، اگر ہم سمیع اللہ بلوچ کیس اور سیکشن 232دونوں کو غلط کہہ دیں تو نااہلی تو ایک دن بھی نہیں رہے گی، کوئی سچا ہے یا نہیں یہ اصول تو ٹرائل کے بعد ہی طے ہو سکتا ہے، اسلام میں توبہ اور صراط المستقیم پر واپس آنے کا راستہ موجود ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد بھی سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کیلئے اہل ہو جاتے ہیں، اہلیت سے متعلق دونوں آرٹیکل الیکشن سے قبل لاگو ہوتے ہیں، غداری ،زیادتی،قتل کے الزام کا سامنا کرنے والا الیکشن لڑ سکتا ہے لیکن معمولی خطا پر نااہلی تاحیات! جب قانون آچکا ہے اور نااہلی پانچ سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم نااہلی دو سال بھی کر سکتے ہیں، الیکشن آٹھ فروری کو ہو رہے ہیں، ایک ریٹرننگ افسر تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق کرے گا، دوسرا ریٹرننگ افسر پانچ سال نااہلی کی بات کرے گا، ہم اس تضاد کو ختم کرنے کیلئے کیس سن رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہے یا پانچ سال۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں۔محمد کاشف چوہدری کے وکیل سید اصغر حسین سبزواری نے اپنے دلائل میں کہا تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی “جج میڈ لا” ہے، جہانگیرترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونی چاہیے، جہانگیرترین کیس میں ٹرائل کے بغیرتاحیات نااہل کر دیا گیا۔

سید اصغر سبزواری نے کہا کہ وہ وکیل خرم رضا کے دلائل اپناتے ہیں۔ سید اصغر سبزواری کا کہنا تھا کہ میں تاحیات نااہلی کی حمایت نہیں کرتا۔

چیف جسٹس کا سید اصغر سبزواری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم انفرادی کیسز کو ٹچ نہیں کریں گے اوراجتماعی فیصلہ کریں گے، ہم صرف آئینی اورقانونی نقاط لینا چاہتے ہیں۔ ایک اوردرخواست گزار کے وکیل شیخ عثمان کریم الدین نے دلائل دیے کہڈکلیئریشن کے بغیر آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ کوئی ڈکلیئریشن نہیں دے سکتی۔ 

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ صادق اورامین کی تعریف کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باقی آئین انگریزی میں ہے کیا امین کامعنی انہیں نہیں پتا تھا، جنرل ضیاء اور ان کے وزیر قانون کو امین کے لفظ کا مطلب پتا نہیں تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی چیزیں صرف کنفیوژن کے لئے ڈالی گئی ہیں یا کوئی اوروجہ بھی تھی۔

شیخ عثمان کریم الدین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے کہ کوئی شخص صادق اورامین ہے کہ نہیں۔ عثمان کریم الدین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، پھر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، اس کے بعد تین رکنی بینچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظرثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس عمر عطا بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا، اب سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ پانچ رکنی بینچ کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مقف کی نفی کی؟شیخ عثمان کریم الدین نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت کے تعین کی درست تشریح نہیں کی، سپریم کورٹ اپنی غلطی کی تصحیح کر سکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔

قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی؟ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ اور فیصل واوڈا کیسز فیصلے ایک ہی جج نے کئے اس کے مطابق تو آج ایک شخص صاداق اورامین نہیں توکل کو وہ صادق اورامین ہوسکتا ہے۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے آرٹیکل 62-1(f)کے تحت پارلیمان کے لئے دروازہ کھولا کہ آپ قانون سازی سے اس معاملہ کو اٹینڈ کرسکتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آرٹیکل 62اور63کا معاملہ ایک ہی ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قانون خود کہہ رہا ہے کہ ناہلی پانچ سال کے لئے ہو گی۔ 

وکیل عثمان کریم الدین کا کہنا تھا کہ صرف ایک کاغذات نامزدگی پر اعتراض ہوسکتا ہے اوراگلے ہی دن کسی اور سیٹ پر جاکرکاغذات نامزدگی جمع کرواسکتا ہے،نااہلی کی سزا پانچ سال کیلئے بھی نہیں ہونی چاہیئے، سیکشن 232(2)بھی غلط ہے۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا نقطہ ہے۔ عثمان کریم الدین کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلہ پر نظرثانی ہونی چاہیئے۔ اس کے بعد ساتھ ان کے دلائل ختم ہو گئے اورعدالتی وقفہ کردیا گیا۔ 

وقفے کے بعد چیف جسٹس کا عدالتی معاون عزیز کرامت بھنڈار ی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی نے بھی الیکشن ایکٹ 2017کی سیکشن 232(2)پر حملہ نہیں کیا۔

 جسٹس سید منصور علی شاہ کا عزیز کرامت بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا عدالتوں نے 18ویں ترمیم سے قبل یا بعد میں آئین کے آرٹیکل 62-1(f)کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ کیا۔ 

سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62-1(f)میں ترمیم کب آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وکیل 18ویں ترمیم سے قبل کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ کی زبان تبدیل کردی تو پورا پاکستان بند کردیا تھا ۔چیف جسٹس نے عزیز کرامت بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی جج کی جانب سے سمیع اللہ بلوچ اورفیصل واوڈا کیسز کے لکھے فیصلوں کو کیسے ریکنسائل کریں گے، ہمیں بتادیں۔ 

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی غلطی پر ندامت کااظہار کرتا ہے توکیا اس کو فوری معافی مل جائے گی یا کچھ وقت کے بعد معافی ملے گی۔

چیف جسٹس کا عزیز کرامت بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کنفیوژ ہیں اورکوئی بھی پوزیشن حق میں یامخالفت میں نہیںلے رہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بھنڈاری صاحب میں نے ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم عزیز کرامت بھنڈاری کو سننا چاہیں گے لیکن الیکشن شیڈول جاری ہوچکا ہے اور ہم نے آرڈر بھی لکھنا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آرٹیکل 62-1(f)والی شرائط اگر پارلیمنٹ نے ہمارے اوپر نافذ کی ہوتیں توہم میں سے کوئی جج نہ بن سکتا۔

جسٹس مسرت ہلالی کا عزیز کرامت بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا کوئی ایسی شق اس جج کے لئے بھی ہے جو دوسروں کو نااہل کرتا ہے وہ خود بھی ان شرائط پر پورااترتا ہے کہ نہیں۔

You might also like

Comments are closed.