سپریم کورٹ نے کینیا میں قتل کیے گئے پاکستانی صحافی ارشد شریف کیس میں اسپیشل جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ارشد شریف قتل کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ہمیں ایسی رپورٹس نہیں چاہیے، جن میں کچھ پیشرفت ہے ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو افسران نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی، جس میں بہت سے بیانات اور شواہد تھے، اسپیشل جے آئی ٹی نے کوئی پیشرفت نہیں کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ پچھلی سماعت سے اب تک کوئی پیشرفت کیوں نہیں کی گئی؟
انہوں نے استفسار کیا کہ جن 2 افسران نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بنائی، ان کو اسپیشل جے آئی ٹی کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ارشد شریف قتل کی ایماندار اور شفاف تحقیقات چاہتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جے آئی ٹی نے 20 نمبرز کے فون اور واٹس ایپ کالز کی ریکارڈنگ مانگی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ نمبرز جے آئی ٹی کو کہاں سے ملے ہیں؟
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ان نمبرز کا ذکر تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے یہ بھی کہا گیا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تو کہیں ان نمبرز کا ذکر نہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ تمام 20 نمبرز ان لوگوں کے ہیں، جو جائے واردات پر موجود تھے، تمام نمبرز کینیا کے حکام نے فراہم کیے ہیں، جے آئی ٹی17 مئی کو دبئی اور کینیا کےلیے روانہ ہوگی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال اٹھایا کہ کیا کینیا میں واٹس ایپ کال ریکارڈ کرنے کی صلاحیت موجودہ ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کینیا اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں تو ریکارڈ کیسے ملے گا؟
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ حکومت کی سنجیدگی پر شدید تحفظات ہیں، ابھی تک خرم اور وقارکے دائمی وارنٹ بھی جاری نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ کیا حکومت وارنٹس کے اجرا پر کسی سے مذاکرات کررہی ہے؟ دائمی وارنٹ جاری کرنا تو چند منٹ کا کام ہے، سمجھ نہیں آرہا وارنٹس کو اتنا پیچیدہ کیوں بنایا جارہا ہے۔
Comments are closed.