بدھ7؍شوال المکرم 1442ھ19؍مئی 2021ء

سٹنگر میزائل: افغان جنگ کا فیصلہ کن ہتھیار جو روسی افواج پر قیامت بن کر ٹوٹا

سٹنگر میزائل کے حوالے سے افواہیں، سازشی نظریات اور حقائق: کیا امریکی ساختہ میزائل افغانستان میں روسی فوج کی شکست کی بنیادی وجہ بنے؟

  • عمر فاروق
  • دفاعی تجزیہ کار

سٹنگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

غفار نے اپنی تین حملہ آور ٹیموں کو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر تکون (مثلث) کی ترتیب میں مقرر کیا تھا۔ انھیں ٹریننگ کے دوران ایسے ہی پڑھایا گیا تھا۔ وہ خاصی دیر سے گھات لگائے انتظار میں تھے۔

کچھ ہی دیر میں انھیں اُن کے صبر کا پھل اس وقت مل گیا جب انھوں نے کچھ روسی، ایم آئی 24 ہیلی کاپٹرز فضا میں آتے ہوئے دیکھے۔ غفار کی ٹیم میں شامل لوگوں میں سے ایک نے ہیلی کاپٹر پر نشانہ باندھ کر ٹرگر دبا دیا لیکن اس وقت اُن کے اوسان خطا ہو گئے جب میزائل ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بجائے صرف 300 میٹر دور ہی زمین پر جا گِرا۔

مجاہدین کو تربیت دینے والے پاکستانی ریٹائرڈ کرنل محمود احمد غازی کے مطابق اگرچہ (کارروائی میں) ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس میزائل کے داغے جانے کی بازگشت نہ صرف افغانستان کی فوجی چھاؤنیوں بلکہ پوری دنیا میں سُنی گئی۔

افغانستان کے جنگ زدہ علاقے کے اندر سوویت فضائیہ کے خلاف یہ سٹنگر میزائل کا پہلا استعمال تھا جس کے بعد جلال آباد اور کابل کے علاقوں میں روسی اور افغان فضائی آمدورفت معطل کر دی گئی تھی۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے سب سے پہلے جن دو عسکری کمانڈروں کو امریکہ کے تیارکردہ سٹنگر میزائل چلانے اور انھیں سنبھالنے کی تربیت دی تھی اُن میں ننگرہار سے عسکری کمانڈر غفار اور کابل سے تعلق رکھنے والے کماندار درویش شامل تھے۔ یہ دونوں گلبدین حکمت یار کے حزب اسلامی گروہ سے منسلک تھے۔

یہ دونوں نہ صرف روسی زبان روانی سے بولتے تھے بلکہ انھیں اُردو اور پشتو پر بھی عبور تھا۔ دونوں کمانڈرز کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کو ملانے والے علاقے فیض آباد کے مقام پر واقع اوجڑی کیمپ کے سٹنگر ٹریننگ سکول میں آئی ایس آئی نے دو ہفتے کی تربیت دینے کے بعد پہلی کارروائی کے لیے جلال آباد کے ہوائی اڈے کی طرف روانہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

آئی ایس آئی کے سٹنگر ٹریننگ سکول کے اس وقت کے سربراہ اور چیف انسٹرکٹر ریٹائرڈ کرنل محمود احمد غازی تھے جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’یہ 25 ستمبر 1986 کا دن تھا جب غفار اپنی ٹیم کے ہمراہ جلال آباد کے ہوائی اڈے کے شمال مشرق میں کچھ فاصلے پر ٹیلہ نما چھوٹی پہاڑی کی جھاڑیوں اور چٹانوں میں منتظر چھپے بیٹھے تھے۔‘

سٹنگر کاندھے پر رکھ کر زمین سے فضا میں داغے جانے والا میزائل ہے جسے باآسانی ایک سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔

یہ امریکی دفاعی صنعت کی پیداوار تھا۔ افغان جنگ کے دوران اس میزائل کے استعمال سے روسی ایئر فورس کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ سٹنگر کی آمد سے پہلے ’مجاہدین‘ کی عسکری میدان میں کارروائیوں کا بہت ہی تھوڑا اثر پڑ رہا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں روسی فوج کی شکست کی بنیادی وجہ سٹنگرز تھے۔

میزائل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ریٹائرڈ کرنل محمود احمد غازی جو افغان مجاہدین کے لیے قائم ہونے والے سٹنگر ٹریننگ سکول کے سربراہ تھے، پاکستان آرمی کی ائیر ڈیفنس ریجمنٹ کے افسر تھے جنھیں آئی ایس آئی ٹیم کے سربراہ کے طور پر سٹنگر کی تربیت حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی بھی بھجوایا گیا تھا۔

انھیں امریکہ بھجوانے کا بنیادی مقصد افغانستان میں لڑنے والے افغان مجاہدین کی ٹیموں کو سٹنگر کی تربیت دینا اور اسے چلانے کے ہنر میں طاق کرنا تھا تاکہ سٹنگر میزائلوں کی مدد سے روسی فضائیہ کی قوت کو مفلوج کر دیا جائے۔

افغانستان میں روسی فضائی قوت کے خلاف سٹنگر انتہائی تیر بہ ہدف اور کارگر ثابت ہوئے۔ سٹنگر میزائلوں کے آنے کے بعد روسیوں نے اپنے لڑاکا طیاروں کو افغانستان میں زمینی حملوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

سٹنگرز آنے سے قبل روسی اور افغان فوج کو افغانستان میں جنگ کے دوران کسی حریف فضائیہ سے مقابلہ درپیش نہیں تھا لہذا زیادہ تر روسی ہیلی کاپٹرز دیہی علاقوں میں افغان مجاہدین کے مراکز پر زمینی حملوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

ریٹائرڈ کرنل محمود احمد غازی اپنی تصنیف کردہ کتاب ’افغان وار اینڈ سٹنگر ساگا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’1986 میں 36 لانچر اور 154 سٹنگر میزائل افغانستان بھجوائے گئے تھے۔ ان میں سے 37 سٹنگر چلائے گئے جن سے 26 روسی جہاز مار گرائے گئے تھے۔‘

1989 تک افغان جنگ میں سٹنگر کے ہدف کو نشانہ بنانے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا جب آخر کار روسی افغانستان سے واپس چلے گئے۔

سنہ 1993 تک آئی ایس آئی سٹنگر سکول فعال رہا اور اس عرصے کے دوران یہ پاکستانی سیاسی قیادت کی توجہ کا مرکز رہا جس کی شہادت اس زمانے کے یکے بعد دیگرے اقتدار میں آنے والے دونوں وزرائے اعظم یعنی محمد خان جونیجو اور پھر بے نظیر بھٹو کے اس سکول کے دوروں سے ملتی ہے۔

ریٹائرڈ کرنل غازی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کے ممتاز سیاستدان اور سی آئی اے کے حکام اس سکول کا اکثر دورہ کیا کرتے تھے۔

اوجڑی کیمپ حادثہ

ضیاالحق

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل محمود احمد غازی فیض آباد میں اوجڑی کیمپ میں اپنے ساتھی افسر کے دفتر میں داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے ساتھی کو پریشانی اور اضطراب کی حالت میں کسی کو فیلڈ فون پر کال ملاتے پایا۔

یہ 10 اپریل 1988 کی صبح ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ اوجڑی کیمپ پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس سروس، آئی ایس آئی کا الگ تھلگ اور سنسان سا مقامی دفتر اور انٹیلیجنس کے افغان ڈیسک کا فیلڈ آفس تھا جبکہ اس کے وسیع و عریض احاطے (کمپاونڈ) کے اندر گولہ بارود کے ذخیرہ کی جگہ بھی واقع تھی۔

لیفٹیننٹ کرنل محمود احمد غازی نے بعد ازاں اپنی تحریر کردہ یاداشتوں میں بیان کیا کہ ’فیلڈ فون استعمال کرنے والا افسر پریشان دکھائی دے رہا تھا کیونکہ بارود خانے سے اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ بارود خانے سے کوئی جواب نہ آنے کا مطلب تھا کہ کوئی بہت بڑی گڑ بڑ ہے۔‘

کرنل محمود احمد غازی نے لکھا کہ ’اس (فیلڈ فون استعمال کرنے والے افسر) نے مجھے بتایا کہ جہاں گولہ وبارود ذخیرہ کیا جاتا ہے، اس طرف سے زور دار دھماکے کی آواز سُنی ہے، اسی اثنا میں میجر بٹ دوڑتے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے اور کہا کہ بارودخانے میں دھماکہ ہو گیا ہے۔ (افغان ڈیسک کے سربراہ) بریگیڈئیر افضل جنجوعہ اور کرنل امام (افغان مجاہدین کے لیجنڈری ٹرینر) سمیت دفتر میں موجود تمام افسران فوری طورپر بارودخانے کی طرف دوڑ پڑے۔‘

کرنل غازی اپنی کتاب ’افغان جنگ اور سٹنگر کی داستان‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ہم بارود خانے کے مقام پر پہنچے جو افغان ڈیسک کے دفتر سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر تھا ،تو ہم نے دیکھا کہ کچھ افسر اور سپاہی اوجڑی کیمپ کے احاطے سے بارود سے لدے ٹرک نکالنے کی کوشش میں مصروف تھے، یہ کارروائی انھوں نے اس احساس کے بعد شروع کی تھی کہ کسی بھی لمحے اس سے بڑا دھماکہ ہو جائے گا۔‘

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل غازی نے لکھا کہ ’گیٹ پر پہنچنے پر ان ٹرکوں کے ڈرائیور اس وقت خوفزدہ ہو گئے جب انھوں نے گیٹ بند پایا۔ جیسے ہی گیٹ پر تعینات محافظوں کو پتہ چلا کہ کچھ گڑ بڑ ہے تو انھوں نے متعین طریقہ کار (ایس او پیز) کے مطابق تمام گیٹ بند کر دیے تھے۔ ایک اور افسر میجر رفاقت بارود سے بھرے ان ٹرکوں میں سے دس کو ایک محفوظ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔‘

کرنل غازی نے لکھا کہ ’بارود خانے کے مقام پر پہنچنے پر ایک خوفناک منظر نے ہمارا استقبال کیا۔ بارود خانہ جو چھت تک اسلحہ سے بھرا پڑا تھا، آگ کی لپیٹ میں تھا۔ بارود خانے میں کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ بظاہر کوئی بھی آگ بجھانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بارود خانے میں جو موجود تھے انھوں نے غلط ترجیحات اپنا لیں اور پہلے آگ پر قابو پانے کے بجائے، وہ فرسٹ ایڈ اور زخمی افراد کی منتقلی میں مصروف ہو گئے تھے، یہ ناتجربہ کاری اور تربیت کے فقدان کی یقینی علامت تھی۔‘

سٹنگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے لکھا ’ہم سب کو احساس ہو گیا تھا کہ بڑا دھماکہ ہونے میں بس چند ہی لمحے باقی ہیں جو بس ہونے ہی والا ہے، کرنل امام نے فوری خطرے کو محسوس کیا، مجھے ان کے الفاظ یاد ہیں کہ ’بہت دیر ہو گئی، اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’ابھی ہم بمشکل ’جگہ خالی کرو‘ ہی چلِاّ پائے تھے کہ بڑا دھماکہ ہو گیا۔‘

یہ خوفناک دھماکہ جس وقت ہوا، وہاں موجود کسی آئی ایس آئی افسر کی طرف سے ایسی اطلاعات کا سامنے آنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

33 سال قبل راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر قائم آئی ایس آئی کے فیلڈ آفسز میں سے ایک اوجڑی کیمپ میں ہونے والے اس دھماکے کی خوفناک یاد عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں راکٹ، میزائل اور کئی دوسری طرح کا گولہ وبارود بارش کی طرح رہائشی اور تجارتی علاقوں پر برس رہا تھا۔

افغان جنگ عروج پر تھی اور پاکستانی آئی ایس آئی امریکی سی آئی اے کی معاونت سے افغان باغیوں کو اسلحہ، گولہ وبارود، تربیت اور سرمایہ فراہم کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کو ملانے والے مقام پر موجود اوجڑی کیمپ کو بارود خانے اور اسلحے کے ذخیرے کے طور پر استعمال میں لا رہی تھی۔

لیفٹیننٹ کرنل محمود احمد غازی کی یاداشتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شہر کے قلب میں یہ بارودخانہ بنانے کا خیال اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن کا تھا۔

کرنل غازی کے مطابق جنرل رحمن نے آئی ایس آئی کے اندر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اوجڑی کیمپ میں دھماکہ سبوتاژ کی کارروائی تھی تاکہ وہ خود پر ہونے والی اس تنقید کا رخ موڑ سکیں جو اس نکتے پر ہو رہی تھی کہ شہر کے بیچوں بیچ اتنے بڑے پیمانے پر گولہ باردو کا ذخیر آخر بنایا ہی کیوں گیا؟

ریٹائرڈ کرنل غازی لکھتے ہیں کہ ’ہر قسم کا اسلحہ کل ملا کر دس ہزار ٹن کے ذخیرے پر مشتمل تھا جو فضا میں اڑتا پھر رہا تھا، سٹنگر دائروں میں پرواز کر رہے تھے، ہزاروں راکٹ، اینٹی ٹینک مائنز (ٹینک تباہ کرنے والی بارودی سرنگیں)، ریکائیلز رائفلز (چھوٹی توپوں) کے گولے اور ہلکے ہتھیاروں کی لاکھوں گولیوں کی غضب ناکی ہر طرف جاری تھی۔ ایک پاگل خانہ تھا۔‘

کرنل غازی کے مطابق اس دھماکے میں آئی ایس آئی کے متعدد افسران، ایک درجن سے زائد افغان مجاہدین کے ساتھ مارے گئے جو سٹنگر تربیتی سکول میں اس وقت زیر تربیت تھے، یہ سکول اسی احاطے میں واقع تھا۔

ان دنوں عام خیال یہ تھا کہ اوجڑی کیمپ دھماکے میں روسیوں کا ہاتھ ہے تاکہ افغانستان کو سٹنگر کی فراہمی تاخیر کا شکار یا پھر معطل ہو جائے لیکن ریٹائرڈ کرنل غازی ایک دوسری ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔

سٹنگر میزائلوں کے بارے میں افواہیں، سازشی نظریے اور حقائق

افغان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنرل اختر عبدالرحمن جو اس وقت جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی (تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی کمیٹی) کے چیئرمین کے طور پر کام کر رہے تھے، نے 10 اپریل 1988 کی شام اوجڑی کیمپ کا دورہ کیا جب آگ پر قابو پایا جا چکا تھا۔

کرنل غازی کے مطابق انھوں نے احاطے میں موجود آئی ایس آئی کے افسران سے بات چیت کی۔ ’جنرل رحمن نے افسران سے کہا کہ ان کے خیال میں یہ سبوتاژ کی کارروائی ہے کیونکہ تمام گولہ وبارود جو ہمارے پاس تھا، وہ بہت ہی پائیدار ثابت ہوا اور گذشتہ چھ سے سات سال میں کبھی بھی ایسی رپورٹ نہیں ہوئی۔ یہ جنرل اختر کا آئیڈیا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر امیونیشن ڈمپ (بارودخانہ) شہر کے اندر بنایا جائے۔‘

’ترسیل کرنے والے ہمارے لوگوں نے شہری علاقوں کے قریب اس بارود خانے کے بنائے جانے پر متعدد بار اعتراض کیا تھا لیکن جنرل اختر نے سختی سے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا۔ ان کی ترجیحات اصل میں بہت ہی مختلف تھیں۔‘

کرنل غازی کے مطابق آئی ایس آئی اور آرمی کے حلقوں کے اندر کشا کش جاری تھی جن میں سے ایک اس دھماکے کو سبوتاژ کی کارروائی بیان کرتے تھے تو دوسری جانب وہ تھے جو اسے ایک حادثہ قرار دے رہے تھے لیکن جنرل تنقید کا رُخ تبدیل کرنا چاہتے تھے کیونکہ شہر کے اندر ڈمپ بنانے کا خیال چونکہ ان کا تھا، اس لیے تنقید بھی ان پر ہی جاری تھی۔ جنرل ضیا نے بھی اسی شام جب متاثرہ مقام کا دورہ کیا تو ان کا مؤقف بھی وہی تھا۔

اوجڑی کیمپ کے واقعہ کی توجیح کے لیے ان دنوں کچھ سازشی کہانیاں بھی گردش میں تھیں۔ ان میں سے ایک نظریہ کچھ یوں تھا کہ پاکستان آرمی میں سے کسی نے یا بعض دیگر کے بیان کے مطابق شاید افغان مجاہدین میں سے کسی نے بے ایمانی کرتے ہوئے ایرانیوں کو کچھ سٹنگر میزائل فروخت کر دیے تھے اور امریکی فوجی ماہرین کی ایک ٹیم کیمپ کا دوہ کرنے والی تھی تاکہ میزائلوں کی تعداد کا جائزہ لے سکے۔

ریٹائرڈ کرنل غازی نے اس نظریے کے بارے میں براہ راست اپنی کتاب میں تو کچھ نہیں لکھا تاہم اس حادثے کے بارے میں وہ دو حقائق بیان کرتے ہیں کہ وہ اس سازشی تھیوری سے آگاہ تھے۔

سب سے پہلے ریٹائرڈ کرنل غازی آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک کے پاس موجود سٹنگر میزائلوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات کا حوالہ دیتے ہیں: ’پاکستان نے امریکہ سے مجموعی طورپر 487 لانچر اور 2288 سٹنگر میزائل وصول کیے تھے۔ ان میں سے 122 لانچر اور 281 سٹنگر 10 اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ کے مشہور دھماکے میں تباہ ہو گئے جس کے بعد ہمارے پاس صرف 365 لانچر اور 2007 میزائل باقی رہ گئے تھے۔ ان میں سے 336 لانچر اور 1969 میزائل مجاہدین نے استعمال کیے تھے اور باقی ماندہ امریکہ کو واپس کر دیے گئے تھے۔‘

غالباً اس بیان سے کرنل غازی اس سازشی نظریہ کو رد کرنا چاہتے تھے کہ آئی ایس آئی میں سے کسی نے ایرانیوں کو سٹنگر فروخت کر دیے تھے۔

ریٹائرڈ کرنل غازی کی سٹنگر کہانی میں ایرانیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اپنی کتاب میں انھوں نے سنہ 1987 میں رونما ہونے والے اس واقعے کے بارے میں بتایا ہے جب یونس خالص گروپ کے کمانڈر کو دریائے ہلمند کے کنارے سفر کے دوران بھٹک کر ایرانی حدود میں داخل ہو جانے پر ایرانی فوج نے پکڑ لیا تھا۔ ایرانی فوج نے سٹنگر میزائل اپنے قبضے میں لے لیے اور پاکستانی دفتر خارجہ کے ایرانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے باوجود انھیں واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

’ایک بار پھر یہی سال (1987) تھا کہ خالص کے ایک کمانڈر، جسے چار لانچر اور 16 سٹنگر دیے گئے تھے، نے ہلمند صوبے سے گزرتے ہوئے دریائے ہلمند کے تیز بہاؤ کے سبب، یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایران کے راستے سفر کریں حالانکہ انھیں سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ انھیں کسی بھی قیمت پر ایرانی حدود میں نہیں جانا تھا۔ ایرانی علاقے سے گزرتے ہوئے ان سب کو پاسداران نے پکڑ لیا اور یہ آخری بار تھی کہ سٹنگر میزائلوں کو ہم نے دیکھا۔ مجاہدین کے گروہ کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا لیکن ایرانیوں نے یہ میزائل اور لانچر پھر کبھی واپس نہیں کیے۔‘

کمانڈرز اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان لایا گیا اور ان سے آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے افسران دونوں نے تفتیش کی۔ سی آئی اے افسران نے جھوٹ پکڑنے والی مشینوں کے طریقے کو بھی اس کمانڈر اور اس کے ساتھیوں پر استعمال کیا تاہم ریٹائرڈ کرنل غازی کے مطابق سی آئی اے نے اپنے نتائج کے بارے میں آئی ایس آئی کو نہیں بتایا۔

افغان جنگ کا فیصلہ کُن ہتھیار

پانچ جولائی 1989 کو واشنگٹن پوسٹ نے امریکی آرمی کی طرف سے کرائے جانے والے خصوصی مطالعے کی ایک رپورٹ شائع کی جس میں امریکیوں نے یہ نچوڑ نکالا تھا کہ امریکی ساختہ سٹنگر میزائلوں کے استعمال نے افغان جنگ کا پانسہ پلٹنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔

امریکی آرمی کی اس خصوصی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں روس کے خلاف برسر پیکار افغان گوریلوں نے امریکہ کے تیار کردہ ان طیارہ شکن میزائلوں کی مدد سے ’جنگ کی نوعیت تبدیل‘ کر کے رکھ دی تھی اور یہ ’جنگ کا فیصلہ کن ہتھیار ثابت ہوئے۔‘

رپورٹ کے مطابق مجاہدین نے 340 میزائل داغے جن سے 269 روسی جہاز مار گرائے گئے۔ یہ کارکردگی امریکی اعتبارات سے غیر معمولی طورپر بلند تھی، میزائلوں کے اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کو اوسط 79 فیصد پایا گیا۔

مطالعے میں افغان جنگ کے آخری تین سال کا تجزیہ کیا گیا تاکہ یہ دیکھا اور پرکھا جا سکے کہ ستمبر 1986 میں شروع ہونے والی جنگ میں سٹنگر کے استعمال کے نتیجے میں روس، افغان جنگی چالوں میں کیا تبدیلی رونما ہوئی اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔

معلوم ہوا کہ طیاروں کے ایندھن کی بو سُونگھتے ہوئے ان کا تعاقب کرنے والے اس میزائل کے آنے سے ’لڑائی کی نوعیت میں یکدم تبدیلی آئی‘ اور یہ کہ پہلے میزائل کو چلانے کے بعد ایک ماہ کے عرصے میں سوویت، افغان فضائی حملوں کی کارروائیاں بند ہو گئیں تھیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی حاصل کردہ اس دستاویز کے خلاصے کے مطابق ’سٹنگر کے آنے سے قبل روس کے جامد اور متحرک پروں والے لڑاکا طیارے ہی ہر روز فاتح ٹھہرتے۔ ستمبر 1986 میں جنگ کے انداز میں ڈرامائی تبدیلی آئی کیونکہ اس سے قبل (سوویت افغان) فضائی جنگی مڈبھیڑ غیرمؤثر ہوتی تھی، فوجی دستوں کی بلاروک ٹوک حرکت اور رسد کی فراہمی معمول تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے شائع کردہ رپورٹ کے حوالے کے مطابق ’محکمہ دفاع کے بعض حکام نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ قابل اعتبار اعدادوشمار حاصل کیے جائیں کیونکہ جن گوریلوں کا انٹرویو کیا گیا، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جنگی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے مار گرائے جانے والے طیاروں کی تعداد وہ نہ بیان کر رہے ہوں جو اصل میں تھی۔‘

’مزید برآں چلائے جانے والے میزائلوں کی تعداد 340 بیان ہوئی تھی جو ستمبر 1986 اور فروری (1988) کے آخر تک جاری رہنے والی مزاحمت کے دوران بھجوائے جانے والے 900 سے 1000 میزائلوں کی تعداد سے کم تھی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.