سوئز کینال: برطانیہ نے کس طرح خفیہ طور پر نہر کی ترقی کے منصوبے کو سبوتاژ کیا

سویز کینال

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY

  • مصنف, عامر سلطان
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

بی بی سی کو برطانوی دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ 65 سال قبل نہر سوئز کی ترقی کے سب سے بڑے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو قرضہ مصر نے عالمی بینک سے مانگا تھا اسے روکنے کے پیچھے برطانیہ کا ہاتھ تھا۔

دستاویزات، جو میں نے خود دیکھی ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بین الاقوامی فنڈنگ ​​پر اعتراض کرنے کے لندن کے اس فیصلے کے پیچھے برطانوی فوج کا کافی کردار تھا۔ منصوبہ سوئز کینال کمپنی کو نیشنلائز کیے جانے کے صرف دو سال بعد سامنے آیا تھا۔

26 جولائی 1956 کو مصری رہنما جمال عبدالناصر نے سوئز کینال کمپنی کو نیشنلائز کر لیا تھا، تاکہ مصر اپنی تاریخ میں پہلی بار آبی گزرگاہ کو کنٹرول کرے۔ اس فیصلے کی وجہ سے ’سوئز بحران‘ پیدا ہوا، جس کا ایک بڑا نتیجہ مشرق وسطیٰ سے برطانوی سلطنت کا انخلا تھا۔

جون 1958 میں، مصر نے قومی ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ کے لیے عالمی شپنگ لین کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے مقصد کے ساتھ نہر کی ترقی کے لیے ایک پرجوش منصوبہ بندی شروع کی تھی۔

یہ منصوبہ، جسے ’پراجیکٹ ناصر‘ کا نام دیا گیا، تین مراحل پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے کا مقصد نہر کی گہرائی کو بڑھانا تھا تاکہ بحری جہازوں کا ڈرافٹ (ہل) 35 فٹ کے بجائے 37 فٹ تک پانی کے اندر ہو۔

دوسرے مرحلے میں شپنگ لین کو 40 فٹ تک گہرا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں تک تیسرے مرحلے کا تعلق ہے، اس کی خواہش تھی کہ یا تو نہر کو کافی حد تک چوڑا کیا جائے، یا ایک متوازی نہر کھودائی جائے تاکہ ایک ہی وقت میں دونوں سمتوں میں جہازوں کے گزرنے میں آسانی ہو، جس سے نہر میں ٹریفک میں اضافہ ہوتا، اور اس طرح آمدن میں اضافہ ہوتا۔

suez

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سٹریٹیجک جائزہ

جیسے ہی قاہرہ میں برطانوی سفارت خانے نے مصری حکومت کی جانب سے عالمی بینک سے 120 ملین سے 200 ملین پاؤنڈ سٹرلنگ کے درمیان قرض کے لیے درخواست دینے کے ارادے کی تصدیق کی، برطانوی حکومت نے برطانوی فوج سے کہا کہ وہ اس منصوبے کا سٹریٹیجکلی جائزہ لے۔

وزیر دفاع نے فائل کو مسلح افواج کی چیفس آف سٹاف کمیٹی کو بھجوا دیا، جس نے ملٹری پلاننگ اتھارٹی سے اس پر ایک جامع رپورٹ تیار کرنے کو کہا۔

منصوبے کا مطالعہ کرنے کے بعد پلاننگ کمیشن نے حکومت کو اسے مسترد کرنے اور عالمی بینک کو اس کی مالی اعانت سے روکنے کی سفارش کی۔

’دی ملٹری آسپیکٹس آف سویز کینال ڈویلپمنٹ‘ کے عنوان والی رپورٹ میں برطانوی وزیر دفاع، جن کو حتمی رپورٹ پیش کی گئی تھی، نے کہا کہ ’چیفس آف سٹاف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس تجویز میں کوئی فوجی فائدہ نہیں ہے۔ فوج کے اس پر بہت سخت اعتراضات ہیں۔‘

پلاننگ اتھارٹی نے اپنی معلومات کی بنیاد پر اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’اس بات کا امکان ہے کہ یہ منصوبہ ایک اضافی چینل کی کھدائی کی اجازت دے گا، اور ایسا لگتا ہے کہ ممکنہ گہرائی 37 فٹ ہو گی۔‘

اس کا مطلب تھا کہ مصر کو ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی، جس میں برطانیہ نے عالمی بینک کے ایک بڑے شراکت دار کے طور پر حصہ ڈالنا تھا۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اس سے بغداد معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا جس سے اس میں شامل ممالک ناراض ہو سکتے ہیں، جن پر مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کی پالیسی کا انحصار ہے۔ برطانیہ خطے میں سوویت کمیونسٹ لہر کے تناظر میں عراق، ایران، پاکستان اور ترکی پر مشتمل اتحاد کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’مشرق وسطی میں برطانیہ کی حکمت عملی بغداد معاہدے کی حمایت سمیت مختلف بنیادوں پر مبنی ہے۔‘

اس وقت تک، امریکہ اتحاد کرنے والے ممالک کی مدد کے لیے خاطر خواہ تعاون نہیں کر رہا تھا، جب کہ برطانوی امداد پانچ لاکھ پاؤنڈ سالانہ تھی، اس کے علاوہ 30 ہزار پاؤنڈ کی سالانہ گرانٹ بغداد اتحاد میں شامل ممالک کے فوجی اہلکاروں کے لیے تربیتی منصوبوں کی مالی معاونت کے لیے مختص تھی۔

اور پلاننگ کمیشن نے متنبہ کیا: ’چونکہ اتحاد کے اندر شامل ممالک ہمیشہ فوجی اور سویلین دونوں مقاصد کے لیے ضروری فنڈز کی کمی کا شکار رہتے ہیں، جیسا کہ دوسرے ممالک جن کے ساتھ برطانوی حکومت مشرق وسطیٰ میں تعاون کر رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے مصر کے لیے قرض 120 سے 200 ملین پاؤنڈ کے درمیان ہے، اور اس میں امریکہ یا برطانیہ کے کردار مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کے اتحادی اور دوستوں مصر کی ایک واضح خوشنودی کے طور پردیکھیں گے۔

انھوں نے زور دیا کہ اس سے ’مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کے مقاصد اور حکمت عملی کو نقصان پہنچے گا۔‘

فوجی نقطہ نظر سے، فوجی رپورٹ نے عالمی جنگ کی صورت میں نہر کی اہمیت کو کم سمجھا۔

انھوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے نہر سویز عالمی جنگ کی منصوبہ بندی میں بہت اہمیت نہیں رکھتی۔

suez

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چیفس آف سٹاف کی توقعات کے مطابق محدود جنگ کی صورت میں بھی، جس میں برطانیہ بھی خود ایک فریق ہوا، یہ نہر برطانوی فوج کے استعمال کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی جنگ کی صورت میں اس میں یقینی طور پر عرب اتحاد کی دو ریاستیں (مملکت عراق اور ہاشمی سلطنت اردن) شامل ہوں گی، اور اس لیے نہر سویز برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو دینے سے انکار کر دیا جائے گا۔ اور ’اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کمک بھیجنے کے لیے نہر استعمال کیا جا سکے۔‘

انھوں نے اس امکان کو بھی در کیا کہ کسی بھی وقت برطانوی جہاز رانی کے لیے نہر کو بند کرنے والے مصریوں کو ایسا کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔

رپورٹ نے اپنی حتمی سفارشات میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ برطانیہ کی فوجی حکمت عملی ’اب نہر سویز کے استعمال پر منحصر نہیں ہے، اور اس لیے اس کے بغداد معاہدے پر اثرات کے علاوہ اس مجوزہ پیشرفت کا کوئی اور بڑا فوجی پہلو نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بغداد معاہدہ، اور پورے مشرق وسطی میں برطانیہ کی حکمت عملی اور مقاصد، مصر کو مجوزہ قرض میں برطانیہ یا امریکہ کی شرکت سے شدید متاثر ہوں گے۔‘

وسیع مشاورت کے بعد، برطانوی دفتر خارجہ نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ اور دیگر ممالک، جیسے کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو مصری قرض کی درخواست کو مسترد کرنے پر قائل کرنے کی ضرورت ہے۔

چار ممالک میں برطانیہ کے نمائندوں کو بھیجے گئے ایک کیبل میں برطانوی دفتر خارجہ نے کہا کہ ’اس طرح (نہر سویز) کی بڑی ترقی برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیے بہت کم یا کوئی بھی اقتصادی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔‘

’مصریوں کے لیے تعریف‘

اس ٹیلیگرام میں، جسے فوری اور ٹاپ سیکریٹ کے طور پر درجہ بندی کیا گیا تھا، وزارت خارجہ نے اس خدشے کے بارے میں خبردار کیا کہ عالمی بینک کے اندر ماحول مصر کی درخواست کے حق میں جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ امریکی آرمی کور آف انجینئرز کے سابق کمانڈر اور ورلڈ بینک کے مشیر جنرل ریمنڈ البرٹ وہیلر نے بینک کے خرچ پر کیے گئے مطالعے کے بعد مصری منصوبے کی حمایت کی ہے۔

suez

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیبل میں کہا گیا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل وہیلر نہر کے مصری آپریشن کو سراہتے ہیں اور امکان ہے کہ وہ کہیں کہ عالمی بینک کا قرض ایک اچھی تجارتی تجویز ہے، اور اگر مصری اس کی درخواست کرتے ہیں تو انھیں یہ دیا جانا چاہیئے۔‘

محکمہ خارجہ نے دلیل دی کہ مصر نہر کی ترقی کے لیے جو باقاعدہ پروگرامز چلا رہا ہے وہ مغرب کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، اور اس لیے بڑے ترقیاتی پروگرام کی ضرورت نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’سویز کینال اتھارٹی کی طرف سے نافذ کردہ آٹھویں ترقیاتی پروگرام کی تکمیل، جو مصری ترقیاتی پروگرام کی بنیاد ہے، خشک مال برداری (مائع کے علاوہ ہر قسم کے سامان کی نقل و حمل) اور مسافروں کی نقل و حمل کی ضروریات کو پورا کرے گی۔ ‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس ترقی کی قیمت غیر ملکی سرمائے کی مدد کے بغیر ’ان (مصریوں) کی موجودہ صلاحیتوں کے اندر ہے۔‘

برطانوی وزارت خارجہ نے مغرب کی تیل کی پالیسی کا جائزہ لیا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ مصر کی طرف سے درخواست کردہ قرض ’برمودا میں طے شدہ اینگلو امریکن پالیسی کے خلاف ہو گا، جس میں نہر سویز پر مغربی انحصار کو کم کرنے اور مشرق وسطیٰ کے تیل کو لے جانے والی پائپ لائنوں کی فراہمی کا کہا گیا تھا۔‘

وزارت خارجہ نے تسلیم کیا کہ مصری منصوبے پر برطانیہ کا مؤقف، جسے عالمی بینک ’ناصر پروگرام‘ کا نام دیتا ہے، سیاسی جہت یا نوعیت رکھتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ورلڈ بنک کے قرضے اور مصر کو ملنے والی کسی بھی اہم مغربی امداد سے بہت بڑا سیاسی نقصان ہو گا۔‘

وزارت خارجہ نے ملٹری پلاننگ اتھارٹی کے جائزے سے اتفاق کرتے ہوئے اس پر ایک رپورٹ میں کہا کہ برطانوی حکومت نے ’عالمی بینک کو مصر کو نہر سویز کی ترقی کے لیے مالی اعانت دینے سے روکنے کی کوشش میں دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔‘ انھوں نے نوٹ کیا کہ یہ ترقی ’آمدنی میں اضافے کا باعث بنے گی، جس سے مصری معیشت کو فروغ ملے گا۔‘

’کوئی مفت امریکی امداد نہیں‘

وزارت خارجہ نے قرض کے ممکنہ نقصانات پر بھی زور دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اس (مصر کے لیے مالی اعانت) کا اثر لیبیا، سوڈان اور عرب یونین کے جیسے ممالک کے لیے تباہ کن ہو گا، جو دیکھیں گے کہ وہ مغربی وسائل، جنھیں وہ حاصل کرنا چاہیں گے، ایک دشمن پڑوسی (مصر) کی صلاحیتوں اور حیثیت کی حمایت کے لیے دیے جا رہے ہیں۔‘

انھیں خدشہ تھا کہ اگر مغرب نے مصری منصوبے کے لیے مالی اعانت فراہم کی تو، ’ہم درحقیقت ایسی پوزیشن میں ہوں گے جو ہمیں ناصر کی جانب سے بلیک میل کرنے کی صورت میں مزید کمزور کر دے گا۔‘

سویز کینال

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY

،تصویر کا کیپشن

6 اگست 2015 کو مصر نے سویز کینال کے ساتھ ایک اور نہر کھودنے کا منصوبہ شروع کیا تھا

لہذا، برطانوی دفتر خارجہ نے کہا کہ دوسری حکومتوں کو مطلع کیا جائے کہ لندن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’ہمیں کسی بھی ایسی تجویز کی سختی سے مخالفت کرنی چاہیے کہ عالمی بینک نہر کی ترقی کے متعلق منصوبوں میں دلچسپی لے۔‘

اور برطانوی دفتر خارجہ نے واشنگٹن میں برطانوی سفارت خانے میں اقتصادی امور کے ذمہ دار جارج کرومر اور عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ میں برطانیہ کے نمائندے کو ایک خصوصی کیبل بھیجا، جس میں ہدایات شامل تھیں کہ ’وہ امریکی حکومت کو ہمارے خیالات سے آگاہ کریں اور وہ ہمارے لیے امریکی حمایت کو یقینی بنائیں۔‘

تاہم لندن نے نہر چلانے میں مصر کو تھوڑی بہت مدد فراہم کرنے کے امکان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ کرومر ’یہ واضح کریں گے کہ مصریوں کو اس کی موجودہ سطح پر نہر کو برقرار رکھنے کے لیے موجودہ دیکھ بھال کے کاموں کو انجام دینے کے قابل بنانے کے لیے چند (مالی) سہولیات فراہم کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘

’اور میں نے انھیں مطلع کیا کہ ہمیں امریکیوں کی طرف سے مصر کو کھدائی کرنے والے اور بلڈوزر دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اور ہمیں امریکیوں کے اس قسم کی درخواستوں پر راضی ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘ تاہم، انھوں نے درخواست کی کہ مصر کے لیے امریکی امداد مفت نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ترجیح دیتے ہیں کہ وہ مصریوں سے اس سامان کو مفت میں ادھار دینے کے بجائے کرائے پر دینے کے لیے قیمت وصول کریں۔ سویز کینال اتھارٹی اس قیمت کو ادا کرنے کی مالی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی دفتر خارجہ کو توقع تھی کہ ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو بورڈ میں کینیڈا کا نمائندہ مصری قرض کی درخواست کی حمایت کرے گا۔

جولائی 1958 کے اوائل میں برطانوی وزارت خارجہ نے اوٹاوا میں برطانوی ہائی کمشنر کو ہدایت کی کہ وہ کینیڈا کی وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے برطانوی موقف کی وضاحت کریں اور اس کے لیے حمایت کو تیز کریں۔

انھوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ ’عالمی بینک کے ایگزیکٹو بورڈ میں کینیڈا کے نمائندے کا ردعمل یہ ہے کہ بینک کو مصر کے لیے قرض کے منصوبے کا مطالعہ کرنے کے لیے اس کی مالی اور اقتصادی فیزیبلٹی کی بنیاد پر مغربی سیاسی یا سٹریٹجک تحفظات کو سامنے رکھے بغیر جانے دیا جائے۔‘

جنرل وہیلر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جنرل وہیلر صدر ناصر کے منثوبے کے حمایتی تھے

انھوں نے متنبہ کیا کہ کینیڈا کے وزراء اور کینیڈین وزارت خارجہ ’ایک وسیع نقطہ نظر اپنائیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ (کینیڈا کی) وزارت خارجہ ان مسائل سے آگاہ ہے کہ تیل کے متعلق مغربی پالیسی کو ناصر کے کنٹرول سے بچانا ہے۔ (کینیڈا کی وزارت خارجہ کا) مشرق وسطیٰ کا محکمہ جانتا ہے کہ مغرب ناصر کو مالیاتی قرضے میں اضافے کی قیمت ادا کرے گا۔‘

’غیر دوستانہ‘ افعال

مارچ 1959 تک صورتحال ایسی ہی رہی، جب عالمی بینک کے نمائندے یوجین بلیک نے ایک میٹنگ کی جس میں کرومر کو مصری درخواست پر اصولی طور پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔

میٹنگ میں بلیک نے کہا کہ مصریوں کے منصوبے پر ’پہلے ہی چھ ماہ قبل 7 بولیاں لگ چکی ہیں اور ڈرلنگ جیسے کام کو انجام دینے کے لیے 4 ٹھیکے امریکی کمپنیوں کو دے دیے گئے ہیں، جب کہ مصری خود (نہر سے باہر) زمین پر ضروری کام کر رہے ہیں۔‘ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس مرحلے میں تقریباً دو سال لگیں گے۔

اور بلیک نے اپنے یقین کا اظہار کیا کہ مصری ’بہرحال ان منصوبوں کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ’انھوں نے پیشنگوئی کی کہ وہ پانچ سالوں میں خود اس کی مالی اعانت کر سکتے ہیں۔‘

بلیک نے میٹنگ کو بتایا کہ انھوں نے سٹینڈرڈ آئل، رائل ڈچ اور سوکونی اینڈ گلف نامی آئل کمپنیوں سے بات کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ نئی پائپ لائن کی تعمیر یا سپر ٹینکرز کے استعمال جیسے دوسرے متبادل طریقوں کا سہارا لینے کے بجائے نہر میں بہتری لانے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

انھوں نے ان کمپنیوں کے حوالے سے کہا کہ ’ورلڈ بینک کے قرض کا مقصد کسی حد تک مصریوں کو غیر دوستانہ حرکتوں سے روکنا ہے۔‘

ان کے جائزے کے مطابق، بلیک نے کہا کہ اگر بینک مصر کو قرض دینے کا فیصلہ کرتا ہے، تو ’نہر سویز کی ترقی عالمی بینک کے نقطہ نظر سے سب سے پرکشش منصوبہ ہو گا۔‘

اور بلیک نے کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ مصری ایسا کرنا چاہتے ہیں۔

کرومر نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ یہ بظاہر بلیک کی ذاتی خواہش تھی کہ قرض منظور کیا جائے۔

تاہم، بلیک کے حوالے سے تصدیق کی گئی، ’اگر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، تو وہ ابتدائی طور پر متحدہ جمہوریہ (مصر) کی معیشت کا مطالعہ کرنے کے لیے اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں ایک مشن بھیجیں گے، اور اگر اس کے تسلی بخش نتائج برآمد ہوئے، تو منصوبے کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے ایک مشن کے ذریعے اس کی پیروی کی جائے گی۔

ایسا نہیں ہوا۔ ناصر منصوبے کے صرف پہلے دو مراحل پر عمل درآمد کیا گیا۔

1961 میں، مصری ترقی کا دور دوبارہ شروع ہوا۔ پہلا مرحلہ اپریل کے آخر تک اختتام پذیر ہوا۔ اگلے سال یکم ستمبر کو دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا۔

54 سال کے بعد، مصر نے ایک اور ترقیاتی پراجیکٹ مکمل کیا جس میں شمال میں بحری جہازوں کے گزرنے کے لیے ایک متوازی آبی گزرگاہ بنائئ گئی، جو کہ 35 کلومیٹر نہر سویز کے متوازی ہے اور تقریباً 193 کلومیٹر طویل ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ