کراچی: وزیر خزانہ اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے کا نئے مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کردیا، جس کی مالیت 2244 ارب روپے جب کہ خسارہ 37.7 ارب روپے سے زائد ہے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئےمراد علی شاہ نےاعلان کیا کہ صوبے کے ایک تا 16 گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فی صد تک اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ 16 سے زیادہ گریڈ کے حامل سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ 30 فی صد ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17 فی صد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ صوبے میں کم از کم تنخواہ کی مقررہ حد 25 ہزار روپے پر بھی 35 فی صد کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ رواں برس سیلاب کی وجہ سے 100 ارب روپے کا اضافی بوجھ صوبے کو برداشت کرنا پڑا جب کہ 87 ارب روپے سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگرام کے تحت سیلاب کی بحالی میں استعمال ہوئے۔ سیلاب کے بعد بیرونی معاونت کے منصوبوں کے لیے 147.822 ارب روپے مختص کیے گئے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے لیے 12.5 ارب روپے اور جاری منصوبوں کے لیے 253.146 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ برائے 2023-24 کے اعداد و شمار بتاتے ہوئےسید مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبائی اخراجات کے لیے 1 ہزار 765.02 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، جس میں موجودہ آمدن، سرمایہ اور ترقیاتی اخراجات شامل ہیں۔ بجٹ میں کرنٹ ریونیو اخراجات پر نظرثانی کا تخمینہ 1296.569 ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ برس کے 1199.445 ارب روپے کے بجٹ تخمینوں سے 8 فیصد زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس اضافےکی بڑی وجہ بارشوں، سیلاب کے دوران امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں پر اخراجات ہیں۔ اضافے کے بعد قرض کی ادائیگی کی مد میں 7.65 ارب روپے کی لاگت بڑھی ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں غیرملکی امداد میں اضافہ متوقع ہے، نظرثانی کرنے کے بعد 147.822 ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں وفاقی امداد میں 12.5 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔رواں سال ضلعی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے۔ صوبائی وصولی وفاقی منتقلی اور صوبائی محصولات کا مجموعہ ہیں۔ہمارے وسائل کا بڑا حصہ سندھ وفاقی منتقلی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔این ایف سی کی مد میں براہ راست منتقلی صوبوں سے شیئرنگ فارمولے کے تحت تقسیم کی جاتی ہیں۔
صوبائی بجٹ میں محکمہ مذہبی ہم آہنگی کے لیے آئندہ مال کے لیے 1.52 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پاکستان ہندو کونسل کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں ایک ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کے لیے گزشتہ سال کے 124.87 ارب روپے بجٹ میں مزید 15 فیصد اضافہ کیا ہے جس کے بعد یہ رقم 160 ارب روپے ہو گئی ہے جب کہ محکمہ جیل خانہ جات کے عملے میں اضافے کے لیے ہم نے 463.414 ملین روپے مختص کیے ہیں۔ سندھ پولیس کی بہتری کے لیے 2.796 ارب روپے ملٹری گریڈ ہتھیاروں کی خریداری کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
سندھ پولیس کی گاڑیوں کی خریداری کی مد میں 3.569 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ محکمہ پولیس کے لیے 846.608 ملین روپے اسپشل برانچ کے لیے مختص کیےگئے ہیں، محکمہ انسداد دہشتگردی کے لیے آئندہ سال کے بجٹ میں 868.684 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
آئندہ سال بجٹ میں 3446 افراد پر مشتمل کراؤڈ مینجمنٹ یونٹ تشکیل دیا گیا ہے، 4127 اہل کاروں پر مشتمل ریپڈ رسپانس فورس میں اضافہ کیا جائے گا، مذکورہ دونوں منصوبوں کے لیے آئندہ سال 81.48 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبے کے اہم انٹری پوائنٹس کو محفوظ بنانےکا منصوبہ بنایا ہے، مذکورہ منصوبہ 1.57 ارب روپے سے شروع کیا جا رہا ہے۔ پولیس کا مورال بڑھانے کے لیے 272.78 ملین روپے طبی ادائیگیوں کے لیے مختص کئے گئے ہیں، پولیس کی خوراک کے اخراجات کی مد میں 360 ملین روپے نئےمالی سال کے لیے رکھے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا سندھ میں بروقت انصاف کے لیے سندھ فارنزک لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، سندھ فارنزک لیبارٹری کے لیے 134.50 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔پسماندہ طبقات کی ترقی اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے 100 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ صوبائی محتسب کے 3 علاقائی اور 2 کراچی دفاتر کے لیے 87 ملین روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
سندھ کے سالانہ بجٹ میں صحت کے لیے 214 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جب کہ تعلیم کے لیے 312 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 500 ہائبرڈ بسوں کی خریداری کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بتایا کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا بجٹ 7.108 ارب روپے کیا جا رہا ہے، گاڑیوں کی ٹریکنگ اور مانیٹرنگ جیسے منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا، اس میں گاڑیوں کی رجسٹریشن، اسمارٹ کارڈز اور نمبر پلیٹس کا منصوبہ شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 77 کروڑ 67 لاکھ روپے سکیورٹی فیچرز، رجسٹریشن، اسمارٹ کارڈ پر خرچ ہوں گے جب کہ 1.41 ارب روپے سیکورٹی فیچر نمبر پلیٹس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
Comments are closed.