سندھ ہائی کورٹ نے 5 شوگر ملزم کی جانب سے کمپٹشن کمیشن ایکٹ 2010 کو چیلنج کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملک میں ایک ہی معاشی نظام ہونا چاہیے، مفاد عامہ میں کسی بھی کاروبار پر پابندی کا اختیار پارلیمان کو ہونا چاہیے۔
سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا، تحریری فیصلہ 49 صفحات پر مشتمل ہے۔
فیصلہ جسٹس اقبال کلہوڑو نے تحریری کیا ہے، پانچ شوگر ملز کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن ایکٹ 2010 کو چیلنج کیا گیا تھا۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا ایف آئی اے کی جانب سے 31 دسمبر 2009 کو شوکاز نوٹس جاری ہوئے تھے، 2007 کے آرڈیننس اور اس کے تحت ہونے والے کمیشن کی کارروائی غیر آئینی قرار دی جائے۔
درخواست گزار نے 21 اکتوبر 2009 کی انکوائری رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی بھی استدعا کی تھی۔
عدالت نے شوگر ملز کی جانب سے دائر تمام درخواستیں مسترد کردیں، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ملک میں ایک ہی معاشی نظام ہونا چاہیے، آئین کے آرٹیکل 151 میں قومی معشیت کا تصور ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ مفادِ عامہ میں صوبوں کے درمیان یا ملک کے کسی کونے میں کاروبار پر پابندی کا اختیار پارلیمان کو ہونا چاہیے، پارلیمنٹ ملک کی معیشت کی بہتری اور صارف کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ 2007 کے آرڈیننس کے بعد کمپٹیشن کمیشن کی تمام کارروائی اور شوگر ملز کے مالکان کو جاری شوکاز نوٹس قانونی ہیں، صوبائی حکومتیں صارفین کے حقوق سے متعلق قانون سازی کرسکتی ہیں۔
Comments are closed.