کراچی:نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت غلطی تسلیم کرے،ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کرے۔
دھرنے کے دسویں روز صبح سے ہی شہر کے مختلف علاقوں بالخصوص گلشن حدید، قائد آباد، اسٹار گیٹ،شاہ فیصل کالونی،ملیر،لیاری،فیڈرل بی ایریاسے عوام قافلوں کی شکل میں جس میں خواتین بھی شامل تھیں سندھ اسمبلی کے باہر پہنچتے رہے۔
امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر کالے بلدیاتی قانون کے خلاف ملک بھر میں دھرنے سے یکجہتی کے لیے مظاہرے، جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں۔
دھرنے سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کراچی کے عوام کی خواہشات کے مطابق بلدیاتی نظام اورقانون تشکیل دیا جائے،کراچی کے عوام تنہا،لاوارث نہیں ہیں،ملک میں ہر سیاسی،سماجی پارٹی کو احتجاج،دھرنے کا حق حاصل ہے۔
لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا رویہ اور طرز عمل عوام اور سندھ دشمنی پر مبنی ہے،پیپلزپارٹی کے چیئرمین کراچی سے اسلام آباد ضرور مارچ کریں لیکن پہلے اپنے گھر کی فکر کریں،کراچی کے عوام سراپا احتجاج ہیں،یہ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ کراچی کے عوام کے شہری حقوق کو غصب کرنے،نظر انداز کرنے کی بجائے لانگ مارچ سے پہلے مسائل حل کریں۔
انہوں نے کہاکہ بلاول زرداری سندھ کے عوام پر شہری حقوق غصب کرنے والا قانون واپس لینے کا اعلان کریں،تمام سیاسی،جمہوری،سول سوسائٹی نمائندوں کے ساتھ مل کر بااختیار اورآئین کی روح کے مطابق بلدیاتی نظام بنائیں۔
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہاکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں بااختیار بلدیاتی نظام کا حق دینے کے لیے آئینی طورپر پابند ہیں لیکن وفاق اور صوبائی حکومتیں مسلسل آئین سے انحراف کررہی ہیں،صوبائی حکومت کو کوئی حق نہیں کہ شہری اداروں پر قابض ہوجائے،سندھ حکومت کا2021کا بلدیاتی قانون کالا قانون ہے،روایتی جاگیردارانہ نظام،وڈیرہ شاہی ڈاکٹر آئین کے تحت تقسیم کرو۔
لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ وسائل پر قبضہ کرو،مٹھی بھر طبقہ کراچی کے عوام کے خون پسینے پر عیاشی کرے،یہ ظلم نہیں چلے گا،بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایکٹ غیر جمہوری،آئین کی روح کے خلاف اور شہری حقوق دشمن کالا قانون ہے،۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ سپریم ادارہ ہے،چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی کے عوام کو ریلیف دینے کے جذبے کی بنیاد پر ماضی میں جسٹس رمدے،جسٹس نثار کے دو ر کی غلطیوں کو زندہ کردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ عوام متاثر ہوئے،عدلیہ کی پہلی ذمہ داری ہے کہ قانون توڑنے والی بیوروکریسی اور اہل کاروں کو عبرت بنائے،سرکاری محکموں کی کرپشن کی وجہ سے عوام کو ناقابل برداشت نقصانات سے بچایا جائے،مساجد کو مسمار کردینے کا حکم نا قابل عمل اورنا قابل قبول ہے،عدلیہ اپنے کنڈکٹ سے عوام کے لیے مشکلات کے بجائے پریشانیوں سے نجات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
Comments are closed.