وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے محکمہ تعلیم کی فرنیچر خریداری سے متعلق پس منظر بیان کردیا۔
کراچی میں سندھ اسمبلی کمیٹی روم میں سعید غنی اور صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے پریس کانفرنس کی۔
سعید غنی نے کہا کہ میڈیا پر آیا کہ سندھ میں محکمہ تعلیم نے فرنیچر کی خریداری میں کئی ارب کا ٹیکہ لگایا، یہ ٹھیکہ میرے دور میں شروع ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسکول فرنیچر کی خریداری میں کئی اہم لوگ پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی، آئی بی اے سکھر سمیت مختلف اداروں کے سربراہان کو کمیٹی کا ممبر بنایا گیا۔
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ اس کمیٹی نے 2018 میں ایک پراسیس شروع کیا تھا، جو بڈز ان کے پاس آئی تھیں اس کو کمیٹی نے مسترد کردیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے جو اندازہ لگایا تھا اس حساب سے بولیاں انتہائی کم آئیں، اس سارے معاملے پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو خط لکھا گیا۔
سعید غنی نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی نے ٹینڈرز منسوخ کیے اور 2019 میں ایک بار پھر ٹینڈرز دیے۔
اُنہوں نے کہا کہ سردار شاہ اگست 2019 تک وزیر تعلیم رہے، اگست سے فروری 2020 تک محکمہ تعلیم وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس رہا۔
وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ میرے دور میں بڑی کمپنیز نے بولیاں لگائیں، اس وقت بینچوں کی بولی 21 سے 26 ہزار کے درمیان آئی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پروکیورمنٹ کمیٹی نے سیپرا کے بنیادی اصول کو ڈسکس کیا، جس کے رول کے مطابق اچھا سامان خریدنا ضروری ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ پروکیورمنٹ کمیٹی نے اے ون گریڈ کی شیشم کی لکڑی کا استعمال کرنے کا کہا۔
انہوں نے کہا کہ ایک صاحب اس حوالے سے کورٹ میں چلے گئے، کورٹ نے جو آرڈر دیا وہ محکمے کو نہیں پہنچایا۔
وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ ان صاحب نے توہین عدالت کا کیس دائر کیا، جسٹس صلاح الدین پنہور صاحب کو سیکریٹری ایجوکیشن نے بتایا کہ ہائی کورٹ کا اسٹے آرڈر ہے۔
Comments are closed.