سعودی عرب کے حراستی مرکز میں موجود 40 گھریلو ملازمائیں کون ہیں اور انھیں کیوں قید کیا گیا؟
- ساروج پتھیرانا
- بی بی سی ورلڈ سروس
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے زیر حراست سری لنکا کے گھریلو ملازمین کی حالت زار کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی ہے
مارچ 2019 میں سری لنکا کی رہائشی توشاری کی عمر 16 برس تھی جب اس کی والدہ سنیتھرا گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے کے لیے سعودی عرب روانہ ہوئیں۔ تب سے توشاری نے اپنی 43 سالہ والدہ سنیتھرا کو نہیں دیکھا۔
سعودی عرب میں سری لنکا کے پانچ ہزار کے قریب تارکین وطن ہیں، جن میں سے بہت سی خواتین ہیں، جو گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔
سعودی عرب پہنچنے کے کوئی سات یا آٹھ ماہ بعد سنیتھرا نے گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے ملازمت چھوڑ دی تھی۔
وہ اب سری لنکا کی 40 دیگر خواتین کے ساتھ حراستی مرکز میں قید ہیں اور ان خواتین کی حالت زار حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شائع کی ہے۔
توشاری نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ’میری والدہ نے اپنے آجر کے ساتھ ایک بہت مشکل وقت گزارا۔ انھیں تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔ مناسب کھانا بھی نہیں دیا گیا۔‘
’ایک دن انھیں غسل خانے میں بند کر دیا گیا اور پھر سارا دن وہیں رکھا گیا، یہاں تک کہ ایک گلاس پانی بھی نہیں دیا گیا۔‘
سنیتھرا نے اپنے آجر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور سعودی عرب کے قانون کے مطابق، وہ فوری طور پر غیر قانونی تارکین وطن بن گئیں۔
یہ بھی پڑھیے
بیرون ملک سے گھریلو ملازمین کو قانونی طور پر سعودی عرب میں قیام کے لیے ان کے آجر کے ذریعے کفیل رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سنیتھرا کے فرار ہونے کے فوراً بعد ہی پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا اور ایک حراستی مرکز میں ڈال دیا اور تب سے وہ وہاں ہیں اور واپس اپنے وطن آنے کی منتظر بھی۔
بچے اور حاملہ خواتین
سنہ 2013 میں کھینچی گئی اس تصویر میں غیر قانونی طور پر تارکین وطن کے خلاف قومی کریک ڈاؤن کے دوران دارالحکومت ریاض میں ایک محلے کا محاصرہ کیے جانے کے بعد سینکڑوں غیر ملکی کارکنوں کو خود کو حکام کے حوالے کرنا پڑا
توشاری اس حراستی مرکز کے متعلق بتائی جانے والی باتوں سے گھبرا گئی ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ ان کی والدہ کیسے درپیش حالات کا مقابلہ کر رہی ہوں گی۔
’ایک کمرے میں 40 خواتین ہیں لیکن وہاں دس لوگوں کے لیے بھی کافی جگہ نہیں ہے۔ بعض اوقات وہ جگہ کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہوتی ہیں۔‘
’ان خواتین چھوٹے بچے، حاملہ خواتین اور بوڑھی عورتیں بھی شامل ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سری لنکا کی 41 خواتین، آٹھ سے 18 ماہ کی عمر تک کے چھوٹے بچوں کے ساتھ سعودی دارالحکومت ریاض میں جلاوطنی کے مرکز میں رکھی گئی ہیں۔
تنظیم نے ایک حالیہ بیان میں کہا ’ان میں سے تین خواتین کے ساتھ کم عمر بچے ہیں اور ایک خاتون کو طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ ان خواتین میں سے کسی کو بھی ان کے خلاف کوئی الزام نہیں بتایا گیا ہے اور نہ ہی انھیں قید کرنے کی وجہ اور قانونی مدد فراہم کی گئی ہے۔‘
معلومات کی کمی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 30 لاکھ سے زیادہ گھریلو ملازمین کو مزدور قوانین کا تحفظ حاصل نہیں
سعودی عرب میں سری لنکا کے ایک تارک وطن قوس محی الدین انظر کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل سے رجوع کیا، کیونکہ حکام میں سے کسی نے بھی ان کی متعدد درخواستوں پر کان نہیں دھرے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کیمپ میں بہت سی قومیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں۔ دوسرے ممالک اپنے اپنے ممالک کی اسیر خواتین کو واپس لانے کے انتظامات کر رہے ہیں، صرف سری لنکا ہی اس کام میں تاخیر کر رہا ہے۔‘
انظر نے متعدد بار رضاکارانہ طور پر اس سینٹر کا دورہ کیا ہے، لیکن انھیں ذاتی طور پر نظر بند افراد سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں ’وہ لوگ بیرونی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان کو یہاں رکھنے سے سعودی حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ وہ لوگ صرف سری لنکا کی حکومت کی طرف سے کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے اب بھی یہاں موجود ہیں۔‘
کورونا وائرس کی پابندیاں
زیر حراست خواتین میں سے ایک کے شوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ سری لنکا میں حکام نے بار بار وطن واپسی میں تاخیر کی وجہ کورونا وائرس کے باعث پابندیوں کو قرار دیا ہے۔
انڈین نژاد تامل جیا پرکاش کا کہنا ہے کہ انھوں نے علاقائی دفاتر کے ساتھ ساتھ صدر کے دفتر سے بھی اپنی اہلیہ کو گھر واپس لانے کے لیے مدد طلب کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میری اہلیہ کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور نہ ہی کافی پانی ہے۔ وہ مناسب طریقے سے بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ وہ بواسیر کے مرض کا شکار ہیں۔‘
سری لنکا کے وزیر محنت نمل سیریپالا ڈی سلوا کا کہنا ہے کہ انہوں نے سعودی حکام سے بات چیت کی ہے
سعودی حکام کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، سری لنکا کے لیبر کے وزیر نمل سیریپالا ڈی سلوا نے میڈیا کو بتایا ہے کہ انھوں نے سعودی حکام سے بات چیت کی ہے اور وطن واپسی کے لیے فوری کارروائی کی جائے گی۔
تاہم، اس میں کسی مقررہ وقت کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔
‘انتہائی کمزور ملازمین‘
جب سنیتھرا گھریلو ملازمہ کے طور پر سعودی عرب گئی تھیں، تو انھوں نے اپنی تین بیٹیوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی ماں کو ان کے پاس چھوڑا تھا۔
ان کے شوہر جنھیں گردے میں تکلیف کی شکایت ہے ان کے پاس باقاعدہ نوکری نہیں ہے اور وہ بھاری مشقت نہیں کر سکتے۔ جب سنیتھرا کو ایک سال سے زیادہ عرصے تک حراستی مرکز میں رکھا گیا تھا تو اس دوران ان کی والدہ کی وفات ہو گئی تھی۔
ان کے خاندان کو اب امید ہے کہ وہ کم از کم اپنی والدہ کی موت کے تین ماہ گزرنے کے بعد مذہبی رسومات جو بودھ ثقافت کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے میں شرکت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
سعودی عرب نے حال ہی میں اپنے لیبر قوانین میں بہتری لائی ہے لیکن ‘کفالت’ کا نظام مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سنیتھرا اور دیگر حراست میں لی گئی خواتین نے گھریلو ملازمین کی صورتحال کو اجاگر کیا ہے کیونکہ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں تارکین وطن مزدوروں کا سب سے خطرہ ہے۔
تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ ’سعودی عرب میں حالیہ لیبر اصلاحات میں گھریلو ملازمین شامل نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بھی اپنے آجروں کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑ نہیں سکتے ہیں، جس سے ان کے حقوق کی پامالی کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
ان کی والدہ کی موت کے بعد سے سب سے بڑی بیٹی توشاری نے اپنی دو چھوٹی بہنوں کے لیے ‘ماں’ اور سرپرست کا کردار ادا کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں وہ ملازمت کی تلاش نہیں کر سکتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سکول کے بعد، میں نے ایک کیڈٹ کورس کیا تھا۔ میں بحریہ میں شامل ہونا چاہتی تھی لیکن اب میں گھر سے نہیں نکل سکتی۔ ‘
اس مضمون میں خواتین اور ان کے خاندان کے افراد کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں تاکہ ان کی شناخت کو محفوظ رکھا جاسکے۔
Comments are closed.