بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان حالیہ تناؤ کی وجہ کیا ہے؟

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان حالیہ تناؤ کی وجہ کیا ہے؟

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات

،تصویر کا ذریعہBANDARALGALOUD/SAUDI KINGDOM COUNCIL/ANADOLUAGENCY

متحدہ عرب امارات نے ایک بار پھر روایت توڑ کر اپنے پڑوسی اور علاقائی طاقت سعودی عرب کو چیلنج کیا ہے۔

تیل کی پیداوار میں نمایاں ممالک کی تنظیم اوپیک کی ایک میٹنگ اوپیک پلس کے دوران ابو ظہبی نے سعودی عرب اور روس کی اس پیشکش کو مسترد کیا جس میں سنہ 2022 کے اواخر تک تیل کی پیداوار کم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ یہ اختلاف عوامی سطح پر غیر معمولی انداز میں بیان کیا گیا اور اس پیشکش کو ‘متحدہ عرب امارات سے ناانصافی’ قرار دیا گیا۔

اس دوران سعودی عرب نے نئی ایئر لائن متعارف کرانے کا اعلان کیا جو اماراتی ایئر لائن ایمریٹس کا مقابلہ کرے گی جبکہ سعودی شہریوں پر متحدہ عرب امارات جانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے خلیجی ممالک کے لیے نئے برآمدی قوانین کے اعلان کو متحدہ عرب امارات کے مفاد کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے دونوں ملکوں میں تناؤ کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔

علاقائی اتحادیوں کے درمیان یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے کہ جب دونوں قطر سے اپنے تعلقات بحال کرنے جا رہے ہیں۔ قطر اور سعودی عرب میں اختلافات کے بعد متحدہ عرب امارات کے بھی قطر سے تعلقات خراب ہوئے تھے۔

آخر ہوا کیا؟

سعودی عرب نے تیل کی سپلائی کو محدود کرنے کی پیشکش کی جس کی متحدہ عرب امارات نے مخالفت کی۔ سعودی عرب نے ‘سمجھوتے اور سمجھداری سے’ فیصلے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کی پیشکش پر ‘ایک ملک کے علاوہ تمام اراکین متفق ہیں۔’

خیال رہے کہ گذشتہ سال کووڈ کی عالمی وبا کے عروج میں تیل کی طلب اور قیمت میں کمی آئی تھی مگر اب دونوں بڑھ چکے ہیں اور یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ اوپیک ممالک کے فیصلے اس رجحان کو متاثر کر سکتے ہیں۔

مگر اوپیک پلس میٹنگ کے دوران دونوں ملکوں میں بیان بازی اس تناؤ کی پہلی علامت نہیں۔

تیل، اوپیک

،تصویر کا ذریعہREUTERS/AHMED JADALLAH

ایک ہی دن قبل سعودی عرب نے اپنے شہریوں پر براہ راست متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک جانے پر پابندی لگائی۔ متحدہ عرب امارات وہ واحد خلیجی ملک بن گیا جس پر سعودی عرب نے سفری پابندی لگائی۔

سعودی عرب نے ایک نئی ایئر لائن متعارف کرانے کا بھی منصوبہ بنایا ہے تاکہ تیل کے علاوہ دیگر شعبوں جیسے آمد و رفت کی صنعت میں خود کو منوا سکے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایئر لائن کا مقصد متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایئر لائن ایمریٹس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ایمریٹس بین الاقوامی پروازوں کے لیے کافی مقبول ہے اور اس کے ساتھ دبئی کو خطے میں آمد و رفت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

5 جولائی کو سعودی عرب نے خلیجی برآمدی قوانین کا اعلان کیا جس میں فری زون میں بننے والے سامان اور اسرائیلی سامان کو خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے پریفرینشل ٹیرف (ترجیحی محصولات) سے الگ کر دیا گیا۔

سعودی عرب نے اس سے قبل فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایسی کمپنیوں سے تعاون روک دیں گے جن کے علاقائی صدر دفتر سعودی عرب میں موجود نہیں ہیں۔ اس سے خطے میں دبئی کے کاروباری مرکز کے درجے کو چیلنج کیا گیا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اختلاف کی اور کیا وجہ ہے؟

یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی راہیں جدا کی ہیں۔

جب یمن میں سعودی قیادت میں کارروائیاں مزید بڑھنے لگیں تو یہ واضح ہوگیا کہ مسئلے پر دونوں ملک ایک جیسی سوچ نہیں رکھتے۔

سعودی عرب، محمد بن سلمان

،تصویر کا ذریعہReuters

مشترکہ دشمن ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے علاوہ متحدہ عرب امارات کی دلچسپی اس چیز میں بھی تھی کہ سنی اسلام سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اثر و رسوخ کو ختم کیا جائے اور سٹریٹیجک بحری راستے پر اثر و رسوخ قائم کیا جائے۔

جب سعودی اور یمنی حکومت نے حوثیوں کو شکست دینے کے لیے جنگجوؤں سے اتحاد کیا تو متحدہ عرب امارات نے علیحدگی پسند مجلس الانتقالی الجنوبی (ایس ٹی سی) کی حمایت کی۔ سعودی سربراہی میں یہ اتحاد یمنی حکومت کے ساتھ کھڑا تھا جسے اس علیحدگی پسند گروہ سے خطرات لاحق تھے۔

اگست 2019 میں متحدہ عرب امارات نے عدن میں یمنی حکومت کے فوجی مقامات پر حملہ کیا جس سے سعودی اتحاد کی جانب اسے دیے گئے کردار کی براہ راست خلاف ورزی ہوئی۔

جلد متحدہ عرب امارات نے اس فوجی اتحاد سے خود کو الگ کر لیا مگر یمن میں اس کا اثر و رسوخ اب بھی قائم ہے۔ اس کی مثال جنوبی یمن اور سقطری جزیرے پر اس کا اثر و رسوخ ہے۔

مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟

اس مسئلہ کا تعلق اس مشکل سے ہے جو سعودی عرب کو گذشتہ ایک دہائی سے اپنے خلیجی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں پیش آئی ہے۔

اس کے نتیجے میں ان چھوٹے خلیجی ممالک میں آپسی مقابلہ بڑھا ہے جو خطے میں اپنی تیل کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں۔

تاہم متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے یہ سعودی عرب کے مدمقابل ہوا ہے۔ تیل پر دار و مدار اب کم ہو رہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ رجحان جاری رہے گا۔

کئی شعبوں میں متحدہ عرب امارات اپنے پڑوسی سے آگے ہے۔ کچھ ہی دہائیوں میں ملک نے اپنے مالی، لاجسٹک اور سیاحتی مراکز قائم کیے ہیں اور سعودی عرب سے ان شعبوں میں سبقت حاصل کی ہے۔

اوپیک کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ملکی پیداوار کا تیل پر صرف 30 فیصد انحصار ہے جبکہ سعودی عرب میں یہ 50 فیصد ہے۔

ملکی پیداوار کے اعتبار سے سعودی عرب کافی بڑا ملک ہے مگر متحدہ عرب امارات میں فی کس جی ڈی پی سعودی عرب سے لگ بھگ دگنی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد کو خطے میں سب سے مضبوط شراکت داریوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

پرانے علاقائی اختلافات کے حل کے ساتھ نئے اختلافات بھی ابھر رہے ہیں جس میں خطے میں تیل پر انحصار کم کرنے کا ماڈل خطے میں طویل مدتی تعاون پر فوقیت حاصل کرسکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.