پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ سب سے سستی گیس گھریلو صارفین کو نہیں بلکہ کھاد کے شعبے کو دی جا رہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس چیئرمین سینیٹر عبدالقادر کی زیرِ صدارت ہوا جس میں سیکریٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کچھ تاخیر سے آئیں گے۔
سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ اگر وزیرِ پیٹرولیم آئیں گے تو میٹنگ کریں گے، ہمیں یقین دہانی کرائی جائے کہ وہ آئیں گے، اگر وہ نہ آئے تو ہم میٹنگ نہیں کریں گے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ پچھلے اجلاس میں وزیر آئے تھے، سیکریٹری تو موجود ہیں۔
اجلاس کو ڈی جی گیس عبدالرشید جوکھیو نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2020ء میں جی آئی ڈی سی کے بقایا جات کے 458 ارب روپے وصول کرنے کا حکم دیا تھا، یہ وصولیاں کھاد اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں سے ہونی تھیں، جی آئی ڈی سی ادا کرنے والے اکثر ادارے مختلف بنیادوں پر عدالت میں جا چکے ہیں، آج مختلف شعبوں کی طرف جی آئی ڈی سی کی مد میں 448 ارب 86 کروڑ روپے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ جی آئی ڈی سی کی وصولی کے لیے عدالتوں میں کیسز کی مؤثر پیروی کی جائے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ گیس انفرااسٹرکچر سیس میں 448 ارب 86 کروڑ روپے کے واجبات ہیں۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن کی عدم دلچسپی کے باعث رقم وصول نہیں ہو رہی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فرٹیلائزرز انڈسٹری کو فیڈ میں 171 ارب روپے اور فیول میں 20 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہے، کھاد تو لگتا ہے پیٹرولیم ڈویژن کا پسندیدہ شعبہ ہے جس سے کوئی پوچھ پڑتال نہیں ہوتی، کے الیکٹرک کو 39 ارب روپے ادا کرنے ہیں، ان سے کیوں وصولی نہیں کی جا رہی؟
ایم ڈی سوئی سدرن نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے ساتھ مقدمات کے باعث ریکوری میں مشکلات ہیں، کے الیکٹرک نے عوام سے یہ رقم وصول کر لی مگر سوئی سدرن کو ادائیگی نہیں کی۔
ڈی جی گیس نے بتایا کہ سی این جی سیکٹر کو 82 ارب 25 کروڑ روپے ادا کرنا ہیں، کیپٹیو پاور سیکٹر سے 54 ارب روپے کی وصولی کرنا ہے، حکومت نے کیپٹیو پاور پلانٹس سے وصولی کے لیے کمیٹی قائم کی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں جی آئی ڈی سی کے معاملات پر بحث کے دوران چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ حکومت نے کیس ختم کرانے کے لیے کیا حکمتِ عملی بنائی ہے۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے جواب دیا کہ حکومت نے وزیرِ خزانہ کی زیرِ صدارت کمیٹی قائم کی ہے، حکومت نیا قانون تیار کر رہی ہے جو ایک ماہ میں منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔
سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ ان تمام مسائل کاجواب وزیرِ پیٹرولیم ہی دے سکتے ہیں، حکام تو جواب دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں، پیٹرولیم ڈویژن کھاد انڈسٹری، کے الیکٹرک سے واجبات لینے کے لیے کیوں کچھ نہیں کر رہا؟
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن کی نااہلی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں ذکر کریں۔
سینٹر محسن عزیز نے کہا کہ جو اعداد و شمار پیش کیے گئے وہ درست نہیں ہیں، کیپٹیو پاور اور جنرل انڈسٹری پر طےہوا تھا کہ صارف پر پاس نہیں کیا تونہیں لیا جائے گا، پیٹرولیم ڈویژن نے بہت اضافہ شدہ رقم دکھائی، یہ بوگس اعداد و شمار ہیں، حکومت نے اپناکام درست طور پر نہیں کیا، سارا بوجھ انڈسٹری پر ڈال دیا، حکومت نے جو کمیٹی بنائی اس نے کوئی کام نہیں کیا۔
چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ حکومت نے جو کمیٹی بنائی اس میں قائمہ کمیٹی کے ممبر کو شامل کیا جائے، 3 ماہ بعد حکومتی کمیٹی کی رپورٹ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی جائے، حکومت مقدمات ختم کرانے کے لیے اقدامات کرے۔
سینٹر محسن عزیز نے کہا کہ چیئرمین! آپ مصلحت سے کام نہ لیں، حکومت کو ہدایت کریں کہ وہ وعدے پورے کرے۔
اجلاس میں سیکریٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ کھاد کے شعبے کو یومیہ 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کھاد کے شعبے کو 2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
ڈی جی گیس نے بتایا کہ ملک کی مجموعی یومیہ پیداوار میں سے 18 فیصد گیس کھاد کے شعبے کو دی جاتی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سب سے سستی گیس گھریلو صارفین کو نہیں بلکہ کھاد کے شعبے کو دی جا رہی ہے، اس صورتِ حال میں تو پاکستان میں سب سے کامیاب کاروبار کھاد فیکٹری لگانا ہے۔
Comments are closed.