سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک اسرائیل اتنی طاقتور ریاست کیسے بنا

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کو اس کے قیام سے ہی برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے

اسرائیل مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ برطانیہ نے 14 مئی 1948 کو فلسطین چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اپنی ریاست اسرائیل کا اعلان کیا۔

اس کے بعد اسرائیل کی ریاست نہ صرف قائم رہی بلکہ اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھا چکی ہے۔ پچھلے 75 سال میں اسرائیل ایک ریاست کے طور پر مضبوط ہوا اور عرب ریاستوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔

اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ایٹمی طاقت والا ملک ہے۔ یہ وہ واحد ملک ہے، جو براہ راست صرف مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے، چاہے یہودی دنیا کے کسی بھی حصے سے ہوں۔

75 سال میں اسرائیل نے سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور فوج کے حوالے سے دنیا میں ایک مضبوط پوزیشن بنائی اور یہ ممکن بنانے میں کئی عوامل نے کردار ادا کیا۔

اسرائیل کو اس کے قیام سے ہی برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کی طاقت کے پیچھے مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک ہے۔

برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے بعد فلسطین کو اپنا نوآبادیاتی علاقہ بنا لیا، جس سے 400 سالہ عثمانی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ فرانس کا علاقہ بھی درمیان میں تھا، حالانکہ اس خطے پر سمجھوتے کے تحت برطانیہ کی حکومت تھی۔

یہودیوں کو اپنا علاقہ بنانے کا خیال بنیادی طور پر برطانوی حکومت کی طرف سے ہی آیا۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی گروہ در گروہ فلسطین کی سرزمین پر آنے لگے۔ فلسطین میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی بھی رہتے تھے۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دوسری عالمی جنگ کے بعد اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک ہے

یہودی بستیوں کے تناظر میں عرب ناراض ہو گئے۔ اس احتجاج کو دبانے کے لیے برطانیہ نے عربوں پر بھی تشدد کیا۔ بعد میں اسرائیل کی ریاست کے اعلان کے بعد بھی فرانس اور برطانیہ بالواسطہ اور بلاواسطہ اس کے ساتھ تھے۔

ملایا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سید محمود علی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سے صرف اسرائیل ہی جمہوریت قائم کرنے میں کامیاب رہا اور اس جمہوریت کو فرانس اور برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔

دوسری طرف امریکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ امریکہ نے اسرائیل کی ریاست کو اسی دن تسلیم کر لیا تھا، جب وہ قائم ہوئی تھی لیکن اس خطے میں برطانیہ اور فرانس کا اثر و رسوخ زیادہ تھا تاہم امریکہ کے ساتھ تعلقات 1956 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے تناظر میں مزید مضبوط ہوئے۔

جب اسرائیل نے مغرب کی مدد سے مصر پر حملہ کیا تو سوویت یونین نے ان ممالک کی مدد کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جنھوں نے مصر کی حمایت کی اور امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کو روکنے کے لیے برطانوی فوجیوں کی پوزیشن سنبھالی۔

لندن سکول آف افریقن اینڈ اورینٹل سٹڈیز میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے استاد اور مشرق وسطیٰ کے محقق سید علی علوی نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ اسرائیل بنیادی طور پر سپر پاورز کی حمایت سے وجود میں آیا، جس نے اسرائیل کو بااختیار بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہودیوں کے تعلیمی، ثقافتی اور سائنسی پہلو عربوں سے مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو ایک مغربی ملک تصور کیا جاتا ہے اور 70 کی دہائی سے اسرائیل کی عرب ریاستوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ امریکہ کی مدد سے شروع ہوئی۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یہودی دانشوروں نے اسرائیل کو ایک انتہائی ذہین، جدید، تعلیم یافتہ قوم کے طور پر قائم کیا

اسرائیل کے ہمسایہ ممالک مصر، اردن، لبنان، شام، فلسطین کے دشمن ہونے کے باوجود اسرائیل کے عروج کو نہیں روکا جا سکا۔ اسرائیل نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تین بڑی جنگیں (1948، 1967 اور 1973) اور کئی چھوٹی جنگیں لڑی ہیں۔

ڈاکٹر محمود علی کے مطابق بقا کی جدوجہد نے اسرائیل کو مضبوط بنا دیا۔ اگرچہ ڈاکٹر علوی کا خیال ہے کہ اسرائیل کا فوجی اور تکنیکی غلبہ مغرب کی وجہ سے ممکن ہوا۔

امریکی محالفت کے باوجود ایران کی تکینکی ترقی ہوئی جبکہ اسرائیل کی ترقی کی وجہ امریکہ سے دوستی تھی۔

اسرائیل نے جدید ہتھیاروں، سائبر سکیورٹی، فضائی دفاع، میزائل سسٹم اور انٹیلیجنس آپریشنز پر توجہ مرکوز کی۔

امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اسرائیل کی ٹیکنالوجیکل جدید کاری کو متاثر کیا۔ امریکی کانگریس نے مالی سال 2023 میں 520 ملین ڈالر کے مشترکہ فوجی منصوبوں کی منظوری دی ہے، جس میں میزائل کی ترقی کے لیے 500 ملین ڈالر بھی شامل ہیں۔

اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کا مطالعہ کرنے والی ترک ماہر بصریٰ نور اوزگلر اکٹیل کے مطابق امریکہ کے ساتھ تعلقات اور سرمایہ کاری نے اسرائیل کو عسکری اور اقتصادی طور پر فائدہ پہنچایا۔

بصریٰ نور اس وقت امریکہ کی جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ اس طرح اسرائیل نے ’سٹارٹ اپ قوم‘ کے طور پر اپنی ساکھ بنائی۔

ایک ریاست کے طور پر اسرائیل شروع سے ہی عسکری طور پر مضبوط ہونے کی کوشش کرتا رہا کیونکہ عرب ریاستوں کے درمیان ان کے زندہ رہنے کا یہی واحد راستہ تھا۔

اسرائیل نے اپنی فوجی قوت کو حکمت عملی اور دور اندیشی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا۔ ملک میں 18 سال کی عمر کے بعد تمام یہودی شہریوں کے لیے فوجی سروس لازم ہے۔ مردوں کے لیے 32 ماہ اور خواتین کے لیے 24 ماہ کی فوجی تربیت ہے۔

ملک 60 کی دہائی سے ایٹمی طاقت بن گیا۔ ڈاکٹر محمود علی نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ فرانس نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں اس کی مدد کی۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کی حیران کن کامیابیوں میں سے ایک اس کا زرعی شعبہ ہے

اسرائیل نے اپنے ایٹمی پروگرام کو انتہائی رازداری کے ساتھ آگے بڑھایا۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلم اکثریتی ممالک کو جوہری طاقت کے حصول سے روکنے کے لیے پرعزم تھا۔

برطانوی میڈیا ’دا گارڈین‘ نے 15 جنوری 2014 کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کے جوہری پروگرام پر بڑی حد تک آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مغربی ممالک نے اس کے بارے میں نہ جاننے کا بہانہ کیا۔

نہ صرف فوج بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی اسرائیل کی حیران کن کامیابیوں میں سے ایک اس کا زرعی شعبہ ہے۔

فلسطینیوں کو نکال کر اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو پانی اور زرخیز زمین کی کمی تھی۔ اسرائیل ایک زرعی ریاست سے ہائی ٹیک اقتصادی نظام میں تبدیل ہو گیا۔ ملک نے جدید آبپاشی کے انتظام کے ذریعے صحرا میں مختلف اقسام کی فصلیں اگانے میں کامیابی حاصل کی۔

امریکی انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کے مطابق اسرائیل کی فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری مسلسل جدت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کی فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری نے سنہ 2020 میں 19 ارب ڈالر کی آمدن حاصل کی اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ملک میں جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے سٹارٹ اپس کی تعداد لاکھوں سے زیادہ ہے۔

اسرائیل کی قیادت فوج، زراعت، تعلیم اور بین الاقوامی تعلقات میں طویل المدتی سوچ رکھتی ہے۔ بصریٰ نور کے مطابق اسرائیل کی قیادت کا انداز اور پالیسی قدرے مختلف ہے۔

’وہ فیصلہ سازی میں طویل المدتی اہداف اور بین الاقوامی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

اسرائیل کے یہودی اصل میں سمندر پار خاص طور پر یورپ سے اس خطے میں آئے تھے۔ ڈاکٹر محمود علی کے مطابق، اٹھارویں سے انیسویں صدی تک یورپ میں علم کی ترقی کا حصہ یہودی دانشور تھے جنھوں نے اسرائیل کو ایک انتہائی ذہین، جدید، تعلیم یافتہ قوم کے طور پر قائم کیا۔

وہ 30 اور 40 کی دہائی میں اسرائیل کی سرزمین پر آئے اور ان کی مدد سے اسرائیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسی ریاست بن گیا۔

ڈاکٹر علی کے مطابق مشرق وسطیٰ میں جہاں غربت، عدم مساوات اور تعلیم کی کمی تھی وہیں اسرائیل ایک مختلف معاشرے کے طور پر ابھرا لیکن بصری نور کے مطابق اسرائیل کتنا ہی جدید یا طاقتور کیوں نہ ہو، ان کی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی، فلسطینی سرزمین پر قبضے اور لوگوں کے خلاف تشدد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

BBCUrdu.com بشکریہ