سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی دوسری جے آئی ٹی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اتنا اہم کیس ہے، فائلوں میں دستاویزات نہیں ہیں، واقعے کے شہداء کے رشتے دار اتنے سال بعد بھی دھکے کھا رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں سانحۂ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں 7 رکنی فل بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا براہِ راست حکم نہیں دیا تھا، 3 جنوری کو جے آئی ٹی بنی، جس کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دوسری جے آئی ٹی سے قانونی مقاصد حاصل نہیں ہوں گے، ٹرائل کورٹ نے جن 13 افراد کو ٹرائل میں طلب نہ کرنے کا فیصلہ دیا اسے جے آئی ٹی اپنی تفتیش میں کیسے طلب کرے گی؟
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں کی موجودگی میں نئی جے آئی ٹی کا حکم دیا گیا، وہاں دلائل کیوں نہ دیئے؟ سپریم کورٹ کے حکم کو لاہور ہائی کورٹ کیسے غیر قانونی قرار دے سکتی ہے؟
درخواست گزاروں کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نئی جے آئی ٹی کے نوٹیفکیشن میں سپریم کورٹ کا حوالہ موجود نہیں کیونکہ پنجاب حکومت بھی جانتی تھی کہ ٹرائل اسٹیج پر نئی تفتیش نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں ہر فریق کو مکمل دلائل کا موقع دیں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے دلائل میں کہا کہ پنجاب حکومت پہلی اور وفاقی حکومت دوسری جے آئی ٹی بنا سکتی ہے، مگر اس کیس میں پنجاب حکومت نے ہی دوسری جے آئی ٹی تشکیل دی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں اپنے مؤکلان کے لیے دلائل نہیں دے رہا بلکہ نئی جے آئی ٹی بنانے کی اجازت دینا مستقبل میں کیسز کا سیلاب لائے گا، بہت سے کیسز میں ٹائم بارڈ کیسز بھی سپریم کورٹ میں قابلِ سماعت ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ نواز شریف طیارہ سازش کیس کی مثال بھی موجود ہے، سپریم کورٹ نے نواز شریف طیارہ سازش کیس زائد المعیاد ہونے کے باوجود سماعت کے لیے منظور کیا۔
اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز شریف کا کیس چالان کی سطح پر نہیں تھا بلکہ وہ اپیل کی سطح پر تھا۔
عدالتی وقت ختم ہونے پر مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.