اسلام آباد میں بے دردی سے قتل ہونے والی سارہ انعام اور نور مقدم کے لواحقین نے عدالتوں سے انصاف کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد میں شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی سارہ انعام اور دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والی نور مقدم کے لواحقین نے پریس کانفرنس کی۔
نور مقدم اور سارہ انعام کے لواحقین پریس کانفرنس کے دوران انصاف میں تاخیر کا تذکرہ کرتے کرتے رو پڑے۔
مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ 24 فروری 2022ء کو میری بیٹی کے قاتل کو سزائے موت سنائی گئی، سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ کیس جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائیں۔
انہوں نے کہا کہ سارہ انعام کو بہت ہی دردناک طریقے سے قتل کیا گیا، عدالتوں کا معصوم بچیوں کے قاتلوں کو سزا یقینی بنانا ہوگی۔
شوکت مقدم نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بعد میں اور میری بیگم انعام صاحب کے گھر گئے، جس تکلیف سے یہ لوگ گزر رہے تھے ہمیں اندازہ تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم انصاف کے لیے عدالتوں میں گئے، جہاں طویل ٹرائل چلا، کہا گیا یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے ہمیں کہا گیا فیئر ٹرائل ہوگا۔
نور مقدم کے والد نے یہ بھی کہا کہ 24 فروری 2022 کو میری بیٹی کے قاتل کو سزائے موت سنائی گئی، ہائیکورٹ میں کیس گیا نور کے قاتل کو دو دفعہ سزائے موت سنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سزائے موت سنائی، اب میری بیٹی کا کیس سپریم کورٹ میں ہے، گزارش ہے کہ عدالت عظمیٰ کیس کو جلد از جلد سنے۔
شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیس کئی برس تک لٹکے رہے تو لوگوں کا انصاف سے اعتبار اٹھ جائے گا، سارہ انعام کا کیس بھی سنا جائے تاکہ انہیں انصاف ملے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 50 فیصد آبادی خواتین کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ خواتین گھروں میں بیٹھ جائیں، سارہ انعام تو اپنے شوہر کے گھر میں بھی محفوظ نہیں تھی۔
نور مقدم کے پھوپھا بریگیڈئیر (ر) محمد اسلم نے اس موقع پر کہا کہ لوکل رینکنگ میں 163 ملک کا ریکارڈ ہے اور پاکستان کا نمبر 150واں ہے، تمام ججز سے ایک ہی سوال ہے کہ ہم اتنا پیچھے کیوں ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ سارہ انعام پاکستان کی ایک ہونہار بچی تھی، جس کی موت ناقابل معافی ہے۔
مقتولہ سارہ انعام کے والد انعام الرحیم نے کہا کہ کل میری بیٹی کو دنیا سے گئے ایک سال ہوگیا، یہ برس میری زندگی کا مشکل ترین سال تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک سال اتنا مشکل گزرے گا، سارہ ایک بہت لائق بچی تھی، ہمیں بعد میں پتا چلا کہ میری بیٹی کے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا۔
انعام الرحیم نے یہ بھی کہا کہ شاہنواز نے سارہ سے لاکھوں درہم بٹورے، یہ سب 10 ہفتوں کے اندر اندر ہوا، ہمیں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، شاہنواز کا وکیل دلائل کے لیے عدالت ہی نہیں آیا، جج صاحب نے کہا یہ کیس جتنی جلدی ہو ختم کرنا ہے۔
Comments are closed.