سائفر کے مبینہ متن کا منظرِعام پر آنا پی ٹی آئی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا یا نقصان دہ؟

IK

،تصویر کا ذریعہTwitter

  • مصنف, ترہب اصغر
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

پاکستان کی سیاست میں’سائفر‘ کا معاملہ ایک بار پھر سے زیر بحث ہے اور اس کی وجہ دس اگست کو ’انٹرسیپٹ‘ نامی امریکی نیوز ویب سائٹ کی جانب سے شائع کی گئی وہ خبر ہے جس میں اس سفارتی مراسلے کا مبینہ متن شامل کیا گیا ہے۔

’انٹرسیپٹ‘ کا دعویٰ ہے کہ یہ مراسلہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط و جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی اس گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا جس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر عائد کیا تھا۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے چند دن قبل اسلام آباد میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بیرونِ ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انھیں ‘تحریری دھمکی دی گئی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے خلاف آنے والی تحریکِ عدم اعتماد کا تعلق بھی اسی ’دھمکی آمیز خط‘ سے ہے۔ اس عدم اعتماد کے نتیجے میں اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

اس جلسے میں عمران خان نے امریکہ کا نام نہیں لیا تھا تاہم بعد ازاں انھوں نے نام لے کر امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

انٹرسیپٹ کی خبر سامنے آتے ہی اس متنازع معاملے پر تحریکِ انصاف اور اس کے مخالفین کی جانب سے متضاد ردعمل سامنے آیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سائفر سے متعلق منظرِعام پر آنے والی تفصیلات نے عمران خان کے موقف کو درست ثابت کیا ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’خفیہ مراسلے (سائفر) کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی تفصیلات نے عمران خان کے مؤقف کی صحت اور ساکھ پر مہرِ تصدیق ثابت کی ہے اورلازم ہے کہ اس خفیہ مراسلے پر کی جانے والی بحث کو اس کے ٹھیک تناظر میں رکھا جائے اور تسلیم کیا جائے کہ فی الواقع پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی تھی۔‘

دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اس ’سائفر لیک‘ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے سائفر سے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والے مندرجات درست ہیں تو یہ بذات خود ایک ’بڑا جرم‘ ہے۔

ویب سائٹ ’وی نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’عمران خان اس معاملے پر اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے خود کہہ چکے ہیں کہ سازش امریکہ نے نہیں کی تھی بلکہ فلاں نے کی تھی۔۔۔ یہ سر سے پاؤں تک ایک جھوٹ کا پلندہ ہے، اور انھی معاملات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بڑا بگاڑ آ چکا تھا جسے اعتماد کے لیول تک لانے میں اُن کی حکومت نے بڑی محنت کی ہے۔‘

جبکہ جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’عمران نیازی نے خود اعتراف کیا کہ ان سے سائفر گم ہو گیا ہے۔ اگر وہ گم ہو گیا تو شائع کیسے ہوا، کسی کے تو ہاتھ لگا۔ اگر وزیر اعظم بھی ہو تو وہ بھی سائفر کی کاپی صرف پڑھ سکتے ہیں مگر اسے اپنے ساتھ لے جانا جرم ہے۔ اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔‘

اس سلسلے میں تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ سائفر کو منظرِعام پر لانے کا الزام چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پر عائد کرنے کی کوشش ایک حماقت ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ اس معاملے کی جامع تحقیقات کے لیے ایک بااختیار اور اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی تحقیقات کو عام کیا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کی سازش کا ذمہ دار قرار دینے کا بیانیہ پیش کرنے کے قریباً ایک برس بعد عمران خان نے اس سازش کا اصل کردار امریکہ کے بجائے اپنے دورِ حکومت میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو قرار دے دیا تھا۔

اس تمام تر صورتحال میں چند سوالات نے جنم لیا ہے کہ یہ سفارتی مراسلہ کس نے ’انٹرسیپٹ‘ کو لیک کیا۔ کیا یہ عمران خان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا یا نقصان دہ اور ایک ایسے وقت میں جب انتخابات قریب ہیں اور ملک سیاسی و معاشی غیر یقینی سے کچھ باہر نکل رہا ہے یہ معاملہ مسلم لیگ سمیت اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں پر کیا اثر ڈالے گا۔

IK

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سائفر لیک کا معاملہ عمران خان کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سنیئر صحافی و تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے مطابق امریکہ نے عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کیا۔ جبکہ عمران خان نے کہا تھا کہ سابق فوجی سپہ سالار جنرل باجوہ نے بیرونی حوصلہ افزائی ملنے کے بعد انھیں اقتدار سے نکالا تھا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عمران خان جیل میں ہیں اور ایسے وقت میں اس خبر کا آنا اہم بات ہے۔ پی ٹی آئی یہ تاثر دیتی ہے کہ امریکہ نے براہ راست مداخلت کر کے عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا ہے۔ جبکہ میری یہ رائے ہے کہ انھوں (امریکہ) نے سفارتی سطح پر مداخلت کی جو نہیں کرنی چاہیے تھی۔

وہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جہاں تک رہی بات کہ اس سے عمران خان کو فائدہ ہو گا یا نہیں تو میرا خیال ہے کہ ’جو لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں ان کے لیے یہ بات اہم ہے اور وہ موقف اپنا رہے ہیں کہ پہلے تو قیاس آرائیاں تھیں لیکن اب تو سائفر کا تمام تر مواد سامنے آگیا ہے۔ جو عمران خان کی سچائی کا ثبوت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سب سے عمران خان کے لیے مزید ہمدردی بڑھے گی۔‘

اسی معاملے پر تجزیہ کرتے ہوئے صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’سائفر کے معاملے پر تو عمران خان نے اپنے بیان کو تبدیل کر کے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ میرا حکومت سے نکالے جانا بیرونی نہیں بلکہ اندرونی سازش ہے۔‘

وہ رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ اس وقت اس سائفر والی سٹوری سے عمران خان یا پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ پہنچ سکے گا۔ اور نہ ہی یہ معاملے زیادہ لمبا چل پائے گا۔ لیکن پھر بھی اس معاملے کی اچھی طرح سے تحقیقات ہونی چاہیے۔‘

’یہ وہی مواد لیک ہے جو عمران خان نے شیئر کیا تھا‘

صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ جہاں تک یہ بات ہے کہ سفارتی مراسلے کا متن کیسے اور کہاں سے لیک ہوا، ’تو جب عمران خان وزیر اعظم تھے انھوں نے کچھ صحافیوں کو بلا کر سائفر کے متن کو ان سے شئیر کیا تھا۔ تو ان صحافیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ لیک بظاہر وہی مواد ہے جو ہم سے عمران خان نے شئیر کیا تھا۔ اگر آپ دیکھیں تو انٹرسیپٹ کی خبر میں سازش کے عنصر کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ سفارتی سطح پر استعمال ہونے والی سخت زبان کا ذکر ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ویسے تو تحریک انصاف اس پر تحقیقات کی بات کر رہی ہے۔ لیکن ایک تحقیقات جو ایف آئی اے کر رہی تھی اور اس کو رکوانے کے لیے پی ٹی آئی ہی اسلام آباد ہائی کورٹ گئی تھی۔ اس کے علاوہ عمران خان خود وزیر اعظم تھے انھوں نے بھی سائفر کے معاملے پر اس وقت کوئی اقدام کیوں نہ اٹھایا اور اس وقت شور مچایا جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔

عمران خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’اگر انھیں فائدہ ہوتا تو پاکستانی میڈیا پر کوریج کی پابندی نہ لگتی‘

نسیم زہرہ کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ’اگر انھیں اس سب سے فائدہ ہو رہا ہوتا تو مقتدر حلقے پاکستانی میڈیا پر اس معاملے کی کوریج پر پابندی نہ لگاتے۔‘

مظہر عباس ایک اور سازشی نظریے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جہاں ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ سائفر کا متن مبینہ طور پر پی ٹی آئی کی جانب سے ہی انٹر سیپٹ کو لیک کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہوسکتا ہے حکومت نے جاتے جاتے خود یہ لیک کروایا ہو تا کہ عمران خان کے خلاف آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت ایک اور مقدمہ بنایا جا سکے۔‘

وہ کہتے ہیں ابھی اس معاملے پر بہت سے ابہام ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں آنے والے دنوں میں کیا ہوگا یہ بتانا قبل از وقت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سائفر لیک کے معاملے پر سوشل میڈیا پر منقسم رائے

جہاں سائفر پر سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے وہیں سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس پر مختلف تبصرے و رائے دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہاں پر سائفر پر ہونے والی بحث منقسم نظر آتی ہیں۔

ایک حلقہ عمران خان کا حامی ہے اور وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ عمران خان سچے ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اس معاملے پر تبصرہ کرنے والے انٹر سیپٹ میں شائع ہونے والے مواد پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں اس خبر کے عمران خان کی ذات پر اثرات پر بات کر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر ماحولیات شیری رحمان نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’انٹرسیپٹ کے ذریعے لیک ہونے والا غیر مصدقہ ’سائفر‘ صرف ان باتوں میں اضافہ کرتا ہے جب عمران خان نے عوامی جلسے میں اس کی کاپی لہراتے ہوئے اسے ان کی حکومت گرانےکی سازش کے طور پر بیان کیا تھا۔ ( جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں انھوں نے کھو دیا ہے۔) یہ صرف ایک تلخ ملاقات کے متعلق بیان ہے جو کوئی بھی تجربہ کار سفارتکار آپ کو اس متعلق بتائے گا جب اسے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستانی سفارتکار نے ڈیمارش کی درست سفارش کی تھی۔ لیکن عمران خان کی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی۔ یہ جس نے بھی لیک کیا ہے اس نے عمران خان کو ہی قومی راز بیچنے والا ثابت کر دیا ہے۔‘

صحافی امیر عباس نے پی ٹی آئی کی حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’سائفر نے تو کہانی ہی اُلٹ دی ہے۔ اس میں وہی باتیں امریکی ویب سائٹ نے شائع کی ہیں جو عمران خان پہلے دن سے کہہ رہے تھے۔ اعظم خان کو منظر عام پر لانے کے بعد کچھ صحافیوں کو لانچ کیا گیا کہ سائفر معاملے پر عمران خان کے خلاف بیانیہ پھیلائیں۔ ہم صحافی جب بھی کسی کی زبان بولیں گے تو ہم ذلیل ہوں گے۔‘

امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر احسن بٹ نے سائفر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس کی شہ سرخی غلط معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس خبر کے متن سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عمل کچھ ایسا تھا کہ ’عمران خان مکمل اختیار کے ساتھ اقتدار میں تھے، یوکرین جنگ پر ان کے موقف نے امریکہ کو ناراض کیا اور جس کے بعد انھوں (امریکہ) نے رجیم چینج کی۔ اگرچہ یہ حقیقت نہیں ہے۔‘

صحافی فخر درانی نے اس سفارتی مراسلے کے متن کے لیک ہونے سے متعلق اپنی رائے کچھ اس طرح دی۔

’اس سائفر لیک کی یہ بات عمران خان کے فالوورز کو سمجھ نہیں آرہی بلکہ الٹا یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ثابت ہوگیا نہ کہ سائفر ایک حقیقت ہے۔ ان اللہ کے بندوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سیکرٹ ڈاکومنٹ لیک ہونے کے خان کے لیے نقصانات کیا ہوں گے اور وہ بھی تب جب سب کو پتہ ہے کہ اس کی ایک کاپی عمران خان کے پاس تھی جو انھوں نے دعویٰ کیا کہ گم ہوگئی ہے۔‘

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ’انٹرسیپٹ کی جانب سے لیک کیے گئے ’سائفر‘ میں عمران خان کو ہٹانے کی امریکی سازش کا عندیہ نہیں ملتا۔ یہ صرف امریکی سفارتکار کی جانب سے غیر سفارتی زبان کے استعمال کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستانی سفارتکار نے ڈیمارش کی سفارش کی لیکن عمران خان نے کئی ہفتوں تک اس کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا۔ قومی سلامتی اجلاس میں ڈیمارش بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ لیک کرنے والوں نے عمران خان کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ‘

BBCUrdu.com بشکریہ