اسلام آباد: ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست نمٹا دی۔
سائفرکیس میں جیل سماعت کےخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرفیصلہ سنادیاگیا۔اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا ۔ درخواست کس بنیاد پر نمٹائی گئی ؟ تحریری فیصلے میں وجوہات سامنے آئیں گی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں اخراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں امریکا کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈکرنےکاقانون ہے؟
پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ نےدلائل دیتے ہوئےکہا اس سائفر کو تو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کردیا تھا،اس ملک میں لیاقت علی خان کا قتل ہوا،ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیربھٹو کے ساتھ بھی جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے،کیا ہم نے اپنی تاریخ سے بھی نہیں سیکھنا ؟یہ سائفر امریکہ میں سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو بھجوایا تھا۔
لطیف کھوسہ نے وزیراعظم کا حلف نامہ عدالت کے سامنے پڑھا۔ وکیل پی ٹی آئی نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں نے جب یہ کیس دیکھا تو حیران رہ گیا، پاکستان نے امریکہ سے احتجاج کیا،یہ تسلیم شدہ ہےیہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی۔سابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی اس ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے۔
لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئےکہاسابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنا قومی فرض پورا کیا،پاکستان جمہوری ملک ہے ،ہم نے روایات اور قانون کیساتھ چلنا ہے،کسی اور کے کہنے میں چلنا ہے تو پھر آزادی کہاں گئی؟میرجعفر سراج الدولہ کے ساتھ وہ کچھ نہ کرتا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت ہوتی،میر جعفر کو بھی انعام کے طور پر بعد میں گورنر بنادیا گیا۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا بھٹو صاحب کو بھی مولوی مشتاق کی عدالت میں لاکر کھڑا کیا گیا تھا،یہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی جنگلے میں لے کر آئے،ان کو ڈر کس چیز کا ہے؟ کیا یہ خوف ہے کہ وہ سابق وزیراعظم ہیں،یہ اعظم خان کا بیان لیکر آ گئے جو 3 ہفتے لاپتہ رہا۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر لے گیا، انہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا اب کہہ رہے ہیں کل چارج فریم کرنے ہیں،لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے دیکھا پہلے بھی ہمارے ساتھ ہمایوں دلاور نے کیا کیا،صدر چیخ رہے ہیں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم پر دستخط ہی نہیں کئے،اگر قانون بن بھی جائے تو اس کا اطلاق ماضی پر نہیں ہوتا، پراسکیوشن نے فرد جرم کی کاپی پر دستخط کرنے کا کہا مگر شواہد نہیں دیئے،جب کوئی شواہد ہی نہیں دیئے گئے تو چیئرمین پی ٹی آئی دستخط کیوں کرتے؟ ایسے ہی ٹرائل کو بلڈوز کیا جاتا رہا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
Comments are closed.