صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سائفر سے متلعق اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سائفر سے متعلق میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، میں نے کہا عمران خان فرسٹریٹ ہوئے، میرا مطلب تھا کہ عمران خان غصے میں تھے اسی لیے عوام کے پاس گئے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عارف علوی نے کہا کہ مجھ سے پوچھ ہی لیا ہوتا کہ میری گفتگو کا مطلب کیا ہے؟ زیادہ تر لوگوں نے میرا انٹرویو کم اور تبصرے زیادہ پڑھے۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ میں نے سائفر سے متعلق اپنی رائے دی، میں قائل تھا جب عمران خان نے سائفر پر خط لکھا اسی لیے تو سپریم کورٹ کو بھیجا، میرا یقین اب بھی ہے سائفر پر تحقیقات ہونی چاہیے، عمران خان کو سچا آدمی پایا ہے، میں عمران خان کے ساتھ اسی لیے ہوں کہ وہ سچا آدمی ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ سائفر اگر عمران خان کا بیانیہ ہے تو سچا بیانیہ ہے، اگر میں سمجھتا سازش نہیں ہوئی تو سپریم کورٹ کیوں بھیجتا، میں نے سپریم کورٹ کو دلائل بھی بھیجے تھے، سپریم کورٹ کو دلائل بھیجے کہ اس کو ثابت کرنا مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دلائل میں پاکستان کی ان سازشوں کا ذکر کیا جس کو ثابت کرنا مشکل تھا، سپریم کورٹ کو کہا کہ واقعاتی ثبوت دیکھ لیں، میرے بیان سے میرے بہت سارے دوست خفا تھے، جو شبہات میں نے خط میں لکھے ہیں ان پر تحقیق ہو، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ سازش ہوئی ہے تو میں بھی بڑی حد تک قائل ہوں کہ سازش ہوئی ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ ’کہا گیا کہ میں نے عمران خان کی کمر میں چُھرا گھونپ دیا۔‘
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ عمران خان میرا دوست ہے آج بھی اس کو اپنا لیڈر مانتا ہوں۔
صدر مملکت سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ 100 فیصد متفق ہیں کہ عمران خان کے خلاف سازش ہوئی؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے سازش کے حوالے سے سو فیصد کا لفظ استعمال نہیں کیا۔
Comments are closed.