برطانوی تحقیقاتی ادارے نے حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ ڈپریشن کی بیماری دماغ میں کسی کیمیائی عدم توازن کا نتیجہ نہیں بلکہ زندگی میں پیش آنے والے منفی واقعات و تجربات ذہنی تناؤ کا سبب ہیں۔
لندن کی یونیورسٹی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں ہزاروں افراد پر مشتمل ایک گروہ میں ڈپریشن اور سیروٹونین سرگرمیوں کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ تحقیق میں ڈپریشن کے حوالے سے ماضی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس اور تمام تر تفصیلات کا تجزیہ بھی کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی دہائیوں سے تسلیم کیا جانے والا یہ خیال غلط ہے کہ دماغ میں ایک کیمیکل سیروٹونین کا توازن کا بگاڑ ڈپریشن کاسبب ہے۔
جرنل مالیکیولر سائیکاٹری میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ سیروٹونین ایسا کیمیکل ہے جو مزاج، نیند، ہاضمے اور دیگر جسمانی افعال کے لیے بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن تمام تر تجربات و تجزیوں سے ایسے شواہد نہیں ملے کہ سیروٹونین کی سطح یا اس کیمیکل کی سرگرمیاں ڈپریشن کی وجہ بنیں۔
کئی دہائیوں سے سیروٹونین کو ڈپریشن کی وجہ سمجھا جاتا تھا جس کے باعث مریضوں کو سکون آور ادویات تجویز کی جاتی تھیں تاکہ دماغ میں اس کیمیکل کی سطح میں اضافہ ہوسکے۔ نئی تحقیق سے ان ادوایات کے استعمال پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
محققین کا مزید کہنا ہے کہ ڈپریشن کو قابو کرنے کے لیے کئی مریض سکون آور ادویات کا استعمال دماغ میں سیروٹونین لیول کو متعدل رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ مگر حالیہ تحقیق سے سیروٹونین لیول اور ڈپریشن کے مابین کوئی تعلق نہیں ملا۔
یہ ادویات ڈپریشن کی علامات کی شدت میں کمی لاسکتی ہیں مگر اس کی اصل وجہ مختلف ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ڈپریشن کی بیماری اور زندگی میں پیش آنے والے منفی واقعات و تجربات کے مابین تعلق ہوسکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ منفی واقعات و تجربات سے لوگوں میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، کسی فرد کو زندگی میں جتنے زیادہ منفی تجربات کا سامنا ہوگا، اسے ڈپریشن کا خطرہ اتنا زیادہ ہوگا۔
Comments are closed.