جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

ریکارڈ ساز امپائر احسن رضا کا ناکامی سے کامیابی کا سفر

پاکستانی امپائر احسن رضا نے ٹی 20 میچوں میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد آئی سی سی ایلیٹ پینل کو جوائن کرلیا ہے۔

سینئر امپائر نے پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان حالیہ سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں ٹیسٹ امپائرنگ میں ڈیبیو کیا۔

انہوں نے گزشتہ برس نومبر میں زمبابوے اور پاکستان کے درمیان دوسرے ٹی20 میچ میں امپائر نگ کی اور 50ویں انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے دنیا کے پہلے امپائر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جب امپائرنگ شروع کی تھی تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ مجھے ٹی20 میچز میں سب سے زیادہ امپائرنگ کرنے کا اعزاز حاصل ہوگا، حالانکہ دنیا بھر میں ایلیٹ کلاس کے امپائرز ہیں، لیکن اب تک وہ یہ سنگ میل عبور نہ کرسکے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے، جس نے پاکستانی امپائر علیم ڈار کے ٹیسٹ اور ون ڈے کے بعد مجھے ٹی ٹوئنٹی میں یہ اعزاز بخشا ہے۔

احسن رضا کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی امپائرز کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا تھا، علیم ڈار سے پہلے پاکستانی امپائرز کی کارکردگی اور ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج تینوں فارمیٹ میں پاکستانی امپائرز کی حکمرانی ہے، اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) پاکستانی امپائرز کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے۔

46سالہ احسن رضا کا تعلق لاہور سے ہے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سلیمانیہ اسکول سے حاصل کی، ایف اے اور بی اے گورنمنٹ ایم۔ اے۔ او۔ کالج سے کیا۔

انہوں نے پی این ٹی جیم خانہ کلب، لاہور سے کرکٹ کھیلنا شروع کی، اس کلب نے بڑے بڑے کرکٹرز پیدا کیے، احسن رضا کی بھی خواہش تھی کی عالمی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن کریں۔

جنوبی افریقا کے خلاف دو نوں ٹی 20 میچز میں شاندار پرفارمنس دینے محمد رضوان کی ایک اور خوبی شائقین کرکٹ کو بھا گئی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے کہا ہے کہ سیکیورٹی نہیں اب کوویڈ بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے جونئیرز لیول تک کرکٹ کھیلی اور کلب کی جانب سے انگلینڈ کا دورہ بھی کیا، انہوں نے جب پی۔این۔ٹی جیم خانہ جوائن کیا تو اس وقت پاکستانی امپائر علیم ڈار ٹیم کے کپتان تھے، وہ ان سے بہت متاثر ہوئے۔

انہوں نے 10 سال تک فرسٹ کلاس کرکٹ میں فیصل آباد، حبیب بینک، لاہور سٹی اور سرگودھا کی ٹیموں کی نمائندگی کی۔

انہو ں نے بتایا کہ جس دن عبدالقادر مرحوم نے الوادعی میچ کھیلا، اس دن میں نے فرسٹ کرکٹ میں ڈیبیو کیا، مجھے جاوید میانداد کے ساتھ ایک، دو میچز کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ سلیم ملک اور اعجاز احمد کے ساتھ بھی کرکٹ کھیلی۔

اُن کا کہنا تھا کہ میں وکٹ کیپر بیٹسمین تھا، اس زمانے میں معین خان اور راشد لطیف بھرپور فارم میں تھے، وہ دور ہی ان دونوں کھلاڑیوں کا تھا، اس وجہ سے قومی ٹیم میں جگہ بنانا مشکل تھا۔

قومی کرکٹ ٹیم بولنگ کوچ اور سابق فاسٹ بولر وقار یونس پر نامور امپائر علیم ڈار بازی لے گئے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آل راونڈ کرکٹر محمد حفیظ نے نوجوان کرکٹرز کو کامیابی کے گُر سکھادیے۔

احسن رضا نے یہ بھی کہا کہ کرکٹ چھوڑنے کے بعد مجھے بھی شوق ہوا کہ میں بھی علیم ڈار کی طرح امپائرنگ کے فرائض انجام دوں، اپنے امپائرنگ کیرئیر کا آغاز ناکامی کے ساتھ کیا۔

اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ مجھے لگتا تھا کہ فرسٹ کلاس کرکٹر رہ چکا ہوں، امپائرنگ کرنا آسان کام ہوگا، کرکٹ کے سارے قوانین مجھے معلوم ہوں گے لیکن میں پہلے ہی امتحان میں ناکام ہوگیا اور پی سی بی پینل انڈکشن امپائرز ایگزام میں بری طرح فیل ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ کچھ ٹیسٹ کرکٹرز نے امتحان دیا، وہ بھی ناکام ہوئے تھے لیکن انہوں نے مجھے کہا کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا، انگلینڈ جاکر کرکٹ لیگ کھیلو اور پیسہ کماؤ، ان کی یہ باتیں سن کر بہت مایوس ہوا لیکن ہمت نہیں ہاری، میر ے لئے یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا، جب میں گر کر سنبھلا۔

ریکارڈ ساز امپائر نے مزید کہا کہ انسان مایوسی کے عالم میں سب کچھ چھوڑ دیتا ہے یا کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو میں نے بھی کچھ کرنے کی ٹھان لی۔

ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ آف لاز کو پڑھنا شروع کیا، انگلینڈ گیا اور امپائرنگ کے کورسز کرکے 2004-05 میں دوبارہ پی سی بی پینل انڈکشن امپائرز ایگزام دیا۔

احسن رضا نے 2006 میں فرسٹ کلاس کرکٹ سے امپائرنگ میں ڈیبیو کیا اور اب تک 63 فرسٹ کلاس کرکٹ میچوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

کرکٹرکے بعد امپائرنگ کا تجربہ کیسا رہا، اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کرکٹ کھیلنے کا الگ مزاج ہوتا ہے جبکہ امپائرنگ ایک چیلنجنگ جاب ہے، جس میں آپ کو ایماندار ی کے ساتھ درست فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب کرکٹر تھا تو امپائرز کے فیصلے پر غصہ آتا تھا لیکن اب چیزیں سمجھ میں آتی ہیں کہ امپائرز کی ججمنٹ درست ہوتی تھیں، ہمارے شعبے میں یہ مشہور ہے کہ یہ ہوائی روزی ہے، میں اس چیز پر یقین نہیں رکھتا، میری زندگی میں کرکٹ کھیل کر وہ تبدیلیاں نہیں آئیں جو امپائر بننے کے بعد آئی ہیں، امپائرنگ نےمیری زندگی بدل دی ہے اور میں اس لائف کو بہت انجوائے کررہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری کامیابی میں بہت سے لوگوں نے بہت اہم کردار ادا کیا، ان میں اظہر زیدی، خضر ریاض، ثاقب عرفان، ذاکرخان، بلال قریشی، عبدالحمید، سابق پی سی بی جنرل توقیر ضیاء اور دیگر لوگ شامل ہیں، سابق پی سی بی چیئرمین کا خاص طور پرشکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے میری درخواست پر مجھے دوبارہ امتحان دینے کی اجازت دی۔

احسن رضا کہتے ہیں کہ جس امپائر نے 100 فرسٹ کرکٹ کلاس میچز کھیلے ہوں، وہ بہترین امپائر بن سکتا ہے، دنیا میں جتنے بھی بہترین امپائرز ہیں، انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہیں، جس طرح ایک جج تمام ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے اسی طرح ہمیں بھی پوری ایمانداری کے ساتھ بروقت درست فیصلے لینے پڑتے ہیں۔

امپائر کا مزاج دوستانہ، معاملہ فہم ہونا چاہیے، اگر ایک امپائر کو خود پر کنٹرول نہیں تو وہ میچ کے 22 کھلاڑیوں اور ٹیم آفیشلرز کو کیسے کنٹرول کرے گا؟

بہترین امپائر بننے کیلئے ضروری ہے کہ آپ میں صورتِ حال سمجھنے، جائزہ لینے کی صلاحیت اور فیصلہ سازی کی قوت بہتر ہونی چاہیے، آپ کی کمیونیکیشن بہترین ہونی چاہیے کیونکہ دوسرے ممالک کے ساتھ میچ سپروائز کرتے ہوئے ان کے لب و لہجے اور ان کے مزاج کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امپائرنگ ذہنی طور پر تھکا دینے والا کام ہے، لہٰذا ایک امپائر کو دماغی اور جسمانی طور پر مضبوط ہونا چاہیے، مینٹل پریشر اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے پہلے سے تیار رہنا چاہیے، ایک فرسٹ کلاس کرکٹ میچ میں 20-25 اپیلیں ہوتی ہیں، ان 25 میں سے 24 اپیلیں درست اور صرف ایک غلط فیصلہ دے دیا تو سارا ملبہ امپائر پر ڈال جاتا ہے۔

ٹیم اس وقت یہ نہیں سوچتی کہ انہوں نے چار کیچز ڈراپ کئے، وکٹ کیپر نے اسٹمپڈ مس کیا یا بولر ز نے مار کھائی، اس لیے، میرے خیال میں درست فیصلے دینا آسان کام نہیں۔

احسن رضا نے یہ بھی بتایا کہ میں 2009 میں سری لنکن ٹیم میں حملے شدید زخمی ہوا، جس کے بعد میں خود کو جسمانی طور پر مضبوط رکھنے کیلئے  میچ سے قبل پوری ٹریننگ کرتا ہوں۔

کسی بھی ٹیم کی ناکامی میں موسم کا کردار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ قدرتی چیزوں پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، یہ ایکٹ آف گاڈ Act of God ہے لیکن اس کا بہت گہرا اثر میچ پر پڑتا ہے، کبھی خراب روشنی اور دھند کی وجہ سے میچ روک دیا جاتا ہے یا کبھی وینیوز تبدیل کردیئے جاتے ہیں، بارش کی وجہ سے جیتا ہوا میچ ٹیم ہار جاتی ہے اور کبھی ہاری ہوئی ٹیم کیلئے بارش رحمت بن جاتی ہے، میں سمجھتا ہوا کہ یہ بھی کھیل کی ایک خوبصورتی ہے۔

انٹرنیشنل امپائر احسن رضا کے خیال میں پاکستان میں امپائرنگ کامعیار بہترین ہے، باہر کے ممالک میں امپائرز کو مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں اور مراعات بھی دی جاتی ہیں، اس کے باوجود وہاں کے امپائرز کی ججمنٹ کو دیکھ لیں۔

انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ میں جو امپائرنگ ہوتی ہے اکثر اس میں غلط فیصلے دیے جاتے ہیں، شین وارن، ای ین چیپل اور کرکٹ کی بڑی بڑی ویب سائٹس اور چینلز امپائرنگ کے معیا ر پر تنقید اور تشویش کا اظہارکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں معیاری امپائرنگ پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کا سارا کریڈٹ پاکستان کرکٹ بورڈ اور امپائرنگ اور ریفریز کے شعبے کو جاتا ہے۔

میچ کے دوران کوئی ایسا فیصلہ دیا جس میں آپ کو ندامت محسوس ہوئی ہو، اس سوال کے جواب میں احسن رضا کا کہنا تھا کہ 2019 میں حیدر آباد میں سوئی سدرن گیس اور واپڈا کے درمیان قائداعظم ٹرافی کا میچ کھیلا جارہا تھا اور ان دونوں میں سے کسی ایک ٹیم کو فائنل کیلئے کوالیفائی کرنا تھا۔

سوئی سدرن کا ایک کھلاڑی 80 رنز پر کھیل رہا تھا، اس بیٹسمین نے اس طرح سوئپ ماری کہ گیند سامنے کھڑے فیلڈر کے شن پیڈ سے لگ کر ہوا میں چلی گئی، میں اس وقت لیگ امپائر تھا، مجھے لگا کہ وہ آؤٹ ہے کیونکہ اتنا اونچا گیند صرف شین پیڈ کو ہی جاکر لگ سکتا ہے، زمین پر تو لگا ہی نہیں ہوگا۔

لیکن یہ میری غلطی تھی، مجھے پہلے ساتھی امپائر کے ویوز لینے چاہیے تھے، میں سینئر امپائر تھا تو اس امپائر نے میرے ویوز پر ہی اس کو آؤٹ قرار دے دیا، بعدمیں ری پلے میں معلوم ہوا کہ بال زمین پر لگ کر اس کے پیڈ پر لگی تھی، میرے اس غلط فیصلے کی وجہ سے سوئی سدرن کی ٹیم میچ ہار گئی، مجھے اپنے اس فیصلے پر سخت تکلیف ہوئی۔

انہوں نے کورونا وائرس کے باوجود ملک میں کرکٹ میچز کے انعقاد پر پی سی بی کے اقدامات کی تعریف کی اور  کہا کہ دنیا بھر میں عالمی وبا کے باعث کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اس کے باوجود پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ ٹیموں کی میزبانی کی لیکن یہ کام بھارت نہیں کرسکا، اب جاکر انگلینڈ کی ٹیم بھارت کا دورہ کررہی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے بقیہ میچز، پاکستان کپ، ون ڈے کا کامیابی سے انعقاد کروایا، زمبابوے اور جنوبی افریقا کی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ امپائروں اور میچ ریفریوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دینے کا پی سی بی کا فیصلہ ایک بہت بڑا اقدام ہے، امپائروں کے لئے سینٹرل کنٹریکٹ متعارف کرانے کے بعد امپائرنگ کے معیار میں نمایاں بہتری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اب تمام جونیئر اور ابھرتے ہوئے امپائر اپنی امپائرنگ میں بہتری لانے اور سینٹرل کنڑیکٹ کے حصول کے لئے بہت کوشش کر رہے ہیں۔

لاہور 2009 میں میں سری لنکن ٹیم اور میچ آفیشلز پر ہونے والے خوفناک حملے میں زخمی ہونے والے پاکستانی امپائر احسن رضا کیلئے وہ دن کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں لیکن اس واقعے نے ان کی زندگی بدل دی۔

انہوں نے کہا ’اگرچہ حملے میں شدید زخمی ہوا اور دو گولیاں لگیں جس کی وجہ سے میرا ایک پھیپھڑا کام نہیں کرتا ہے اور 2019 میں مجھے ایک اور سرجری بھی کروانی پڑی، 2009 میں سری لنکا کیخلاف میچ میں فورتھ امپائر تھا، اس وقت میں نے اپنے کیرئیر میں ایک بھی انٹرنیشنل میچ میں امپائرنگ نہیں کی تھی لیکن اس واقعے کے بعد اللّٰہ نے بہت عزت و مقام عطا کیا‘۔

احسن رضا نے اپنے امپائرنگ کیریئر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں ٹی 20 ورلڈ کپ کوالیفائر 2019-20 سمیت 14 آئی سی سی ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لیا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے 57 ڈومیسٹک کرکٹ فائنلز کو سپروائز کیا، جس میں فیلڈ امپائر کی حیثیت سے 15 فرسٹ کلاس اور 19 ٹی ٹوئنٹی فائنلز شامل ہیں۔

وہ علیم ڈار اور محبوب شاہ کے بعد تیسرے پاکستانی امپائر ہیں جنہوں نے فیلڈ امپائر کی حیثیت سے آئی سی سی ورلڈ کپ کے فائنل کو سپروائز کیا۔

انہوں نے کہا کہ ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ 2020 فائنل، آسٹریلیا بمقابلہ بھارت کے میچ میں 92،000 شائقین کے سامنے کھڑا ہونا ایک یادگار موقع تھا۔

احسن رضا اب تک 52ٹی ٹوئنٹی،37 ون ڈے اور دو ٹیسٹ انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.