ریپ کے جھوٹے الزامات کے جرم میں برطانوی خاتون کو ساڑھے آٹھ برس قید کی سزا
ایلینور ولیمز نے خود کو اس ہتھوڑی سے زخمی کیا تھا، جو انھوں نے خود خریدی تھی
برطانیہ میں ایک خاتون کو ریپ اور ایک ایشیائی گینگ (جس میں پاکستانی نژاد افراد بھی شامل تھے) کے ہاتھوں سمگل کیے جانے کے جھوٹے دعوؤں کے جرم میں ساڑھے آٹھ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایلینور ولیمز نے سوشل میڈیا پر اپنی زخمی حالت میں چند تصاویر شائع کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان کی یہ حالت ایک ایشیائی گینگ نے کی ہے۔ جس کے بعد ان کے رہائشی شہر بیرو میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تاہم عدالتی کارروائی کے دوران سامنے آیا کہ ایلینور ولیمز نے ایک ہتھوڑی سے اپنے آپ کو زخمی کیا تھا۔ انھیں انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
دو روزہ عدالتی کارروائی کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ جن دو افراد کے خلاف ولیمز نے الزامات عائد کیے تھے ان کے لیے ان الزامات نے ’دنیا میں ہی دوزخ‘ جیسے حالات پیدا کر دیے جس کے نتیجے میں انھوں نے اپنی جان تک لینے کی کوشش کی۔
محمد رمضان سمیت چند پاکستانی اور ایک سفید فام برطانوی شہری گینگ ریپ، تشدد اور انسانی سمگلنگ کے جھوٹے الزامات کا شکار ہوئے۔ اگرچہ تین برس بعد عدالت نے انھیں بری تو کر دیا لیکن اس الزام نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔
ولیمز نے کاروباری شخص محمد رمضان پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ولیمز کو ایمسٹرڈیم میں جسم فروشی کے لیے بارہ برس کی عمر سے تربیت دینی شروع کر دی تھی۔ رمضان نے بتایا کہ اس الزام کے بعد انھیں جان سے مارنے کی انگنت دھمکیاں سوشل میڈیا پر ملتی رہیں۔
ولیمز نے الزام لگایا تھا کہ رمضان انھیں برطانوی شہر بلیک پول لے گئے جہاں ان کو مختلف مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا تاہم پولیس کی تفتیش میں سامنے آیا کہ ولیمز وہاں خود گئی تھیں اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہری تھیں۔
وہاں انھوں نے ایک نزدیکی دکان سے نوڈلز خریدے اور ہوٹل کے کمرے میں ہی فون پر یوٹیوب دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔
ولیمز نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آوروں نے ان پر ہتھوڑی سے حملہ کیا لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج میں پایا گیا کہ جس ہتھوڑی سے مارے جانے کے وہ دعوے کر رہی تھیں، اسے انھوں نے خود خریدا تھا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایلینور ولیمز کو ہتھوڑی خریدتے دیکھا گیا
ان افراد میں سے ایک کا نام جارڈن ٹرینگوو ہے جنھیں 73 روز جیل میں گزارنے پڑے۔ اس دوران انھیں جیل میں ان مجرمان کے ساتھ وقت گزارنا پڑا جو جنسی تشدد کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ جارڈن کے گھر کی دیوار پر سپرے پینٹ سے ’ریپسٹ‘ لکھ دیا گیا۔
’مکمل طور پر افسانوی‘ دعوے
عدالت نے کہا کہ ولیمز نے اپنے بچپن سے مشکلات کا سامنا کیا اور وہ پہلے بھی کئی بار خود کو نقصان پہنچا چکی ہیں۔
جج نے کہا کہ ولیمز نے جو بھی الزامات لگائے تھے ان میں کوئی حقیقت نہیں تھی اور سبھی مکمل طور پر افسانوی دعوے تھے۔
جج نے کہا کہ ’جھوٹے الزامات کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے انھوں نے بہت بڑے قدم اٹھائے اور خود کو شدید نقصان پہنچایا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان الزامات کے سبب بیرو میں کئی ماہ تک شدید تناوٴ کی صورتحال رہی۔‘
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل اس علاقے میں اس قسم کی کشیدگی کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
عدالت کے فیصلہ سنانے سے قبل وکیل دفاع نے ولیمز کا بیان پڑھ کر سنایا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں علم ہے کہ انھوں نے کیا کیا اور اس بارے میں وہ معذرت خواہ ہیں لیکن یہ قبول نہیں کیا کہ انھوں نے کچھ غلط کیا۔
ولیمز نے کہا کہ ان کے فیس بک پوسٹ نے جو مسئلہ کھڑا کیا وہ اس سے بری طرح ٹوٹ گئیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’اگر مجھے علم ہوتا کہ ان کے فیس بک سٹیٹس کے یہ نتائج ہوں گے تو وہ ایسا کبھی نہیں کرتیں۔‘
Comments are closed.