روہنگیا کا بنگلہ دیش سے جان لیوا فرار: ’سمگلروں نے میری بہن کو سبز باغ دکھائے ‘
- مصنف, سوامی ناتھن نتراجن
- عہدہ, بی بی سی اردو، ورلڈ سروس
روہنگیا پناہ گزین کیمپ کی زندگی سے خوش نہیں
رات کا وقت ہے، ویرانی اور ٹھنڈ بھی کافی ہے۔ فضل احمد (فرضی نام) کی عمر 24 سال ہے اور وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے تک بنگلہ دیش کے روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں رہنے کے بعد انھوں نے انسانی سمگلروں کو پیسے دے کر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
وہ محتاط انداز میں اس دریا کی طرف بڑھتے ہیں جس کے ایک جانب بنگلہ دیش کا کاکس بازار اور دوسری طرف میانمار کی رخائن ریاست ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ راستے میں مر چکے ہیں، لیکن میں بہت سے ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو ملائیشیا پہنچے ہیں۔ میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتا۔‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 میں کم ازکم 348 روہنگیا افراد سمندر میں ہلاک یا لاپتہ ہوئے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملائیشیا کے لیے خطرناک سمندری سفر کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن ایسی کیا چیز ہے جو پناہ گزینوں کو خطرات کے باوجود یہ سفر کرنے مجبور کر رہی ہے؟
مایوسی
احمد کی تین چھوٹی بہنیں اور دو چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کے والدین مر چکے ہیں اور اب وہ خاندان کے سربراہ ہیں۔ وہ اپنے خاندان کا مستقبل بہتر بنانا چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں ہماری زندگیاں محفوظ نہیں۔ ہمارے پاس کام کرنے کا کوئی موقع نہیں۔‘
روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے جانیں بچا کر بنگلہ دیش جا رہے ہیں۔ ان کا آبائی ملک میانمار انھیں شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔
میانمار کی فوج نے 2017 میں ریاست رخائن میں ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا جسے اقوام متحدہ نے ’نسل کشی‘ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے تقریبا دس لاکھ روہنگیا باشندوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔
احمد اور ان کا خاندان پہلے بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’ہم امید کھو چکے ہیں کہ میانمار حکومت ہمیں واپس آنے دی گی۔‘
احمد نے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا جس نے تقریبا 4400 ڈالر کے عوض ان کو ملائیشیا لے جانے کا وعدہ کیا۔ وہ پہلی قسط کے طور پر 950 ڈالر ادا کر چکے ہیں۔ ان کا خاندان ان کے سفر میں ہونے والی پیشرفت کے حساب سے مرحلہ وار رقم کی ادائیگی کرے گا۔
ان کی بہنیں جو گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر رہی ہیں، اس رقم کا کچھ حصہ جمع کر رہی ہیں۔ بقیہ رقم خاندان کے سونے کے زیورات فروخت کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔
لاپتہ افراد
یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال 3500 روہنگیا پناہ گزینوں نے جان لیوا سمندری سفر کی کوشش کی جبکہ 2021 میں یہ تعداد 700 تھی۔
کچھ کشتیاں ڈوبتی ہیں تو ان کا نام و نشان تک نہیں رہتا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک کشتی، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دو دسمبر 2022 کو تقریباً 180 روہنگیا پناہ گزینوں کو لے کر کاکس بازار سے روانہ ہوئی تھی بحیرہ انڈمان میں ڈوب گئی۔
چونکہ روہنگیا بے وطن ہیں اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے ذریعے سفر کر رہے ہیں، اس لیے لاپتہ ہونے والوں کے رشتہ داروں کے پاس ان کا سراغ لگانے کے لیے زیادہ راستے نہیں ہوتے۔
شریفہ خاتون ایک 33 سالہ بیوہ ہیں جو 2016 سے پناہ گزین کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ ان کے خاندان کے چار افراد سمندر میں لاپتہ ہو گئے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میری بہن اپنے تین بچوں، دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ ملائیشیا گئی تھی۔‘ ان کے بہنوئی پہلے ہی 2013 میں خطرناک کشتی کا سفر کرکے میانمار سے ملائیشیا فرار ہو چکے تھے۔
اس کے بعد خاتون کی بہن اور ان کے بچوں نے تشدد سے بچنے کے لیے 2016 میں بنگلہ دیش کا سفر کیا۔ تب سے وہ ملائشیا میں اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی تھیں۔
شریفہ خاتون بتاتی ہیں کہ ’سمگلروں نے انھیں امید دی۔ میری بہن نے پہلی قسط کے طور پر تقریباً 2500 ڈالر ادا کیے اور مجھے ہدایت دی کہ جب وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے تو بقیہ رقم ادا کر دوں۔‘
وہ 22 نومبر کو چلی گئیں اور تقریبا دو ہفتوں کے بعد انھوں نے مجھے میانمار کی رخائن ریاست کے ساحل پر واقع رتھی ڈونگ ٹاؤن شپ سے فون کیا۔
اس کے بعد سے شریفہ خاتون کا اپنی بہن سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ’میں نے اپنی بہن سے کہا کہ وہ نہ جائے لیکن سمگلروں نے اسے سبز باغ دکھائے۔‘
انسانی سمگلنگ میں اضافہ
کاکس بازار کے علاقے میں واقع کتوپلونگ پناہ گزین کیمپ، جسے اکثر دنیا کا سب سے بڑا کیمپ کہا جاتا ہے، میں شریفہ خاتون جیسے بہت سے لوگ رہتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا۔
کاکس بازار کے ایک روہنگیا کارکن محمد عزیز کہتے ہیں ’انسانی سمگلنگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے کیسے روکا جائے۔‘
وسط جنوری کے بعد کم از کم تین کشتیاں ملائیشیا گئیں۔ ایک کشتی 16 جنوری کو، دوسری کشتی 20 تاریخ کو اور آخری کشتی 28 جنوری کو گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کشتیوں پر 350 سے زیادہ افراد سوار تھے یا شاید مزید بھی ہو سکتے ہیں۔
روہنگیا کیمپوں کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ 17 فروری کو بنگلہ دیش کے شہر تنکاف سے 200 افراد پر مشتمل ایک کشتی روانہ ہوئی تھی۔
چونکہ روہنگیا پناہ گزینوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں، عزیز کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پناہ گزینوں کو بیرون ملک ان کے رشتہ دار پیسے بھجواتے ہیں۔
’پناہ گزینوں میں زیادہ تر نوجوان مرد اور عورتیں ہیں۔ کچھ لوگ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔‘
عام طور پر سفر کے لیے ماہی گیری کی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں جو اتنے سارے لوگوں کو طویل سفر پر لے جانے کے لیے ڈیزائن نہیں کی گئیں۔ وہ اس بات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ منزل پر مسافروں کے لیے کیا کیا منتظر ہے۔
عزیز کا کہنا ہے کہ ایجنٹ پناہ گزینوں سے کہہ رہے ہیں کہ ملائیشیا پہنچنے کے بعد وہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔
’یہ سب جھوٹ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
عام طور پر سفر کے لیے ماہی گیری کی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں جو اتنے سارے لوگوں کو طویل سفر پر لے جانے کے لیے ڈیزائن نہیں کی گئیں۔
بے چین اور مایوس
بہت سے روہنگیا کے لیے دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد ممالک میں سے ایک بنگلہ دیش میں رہنا پرکشش نہیں۔
کاکس بازار میں ایک این جی او کے کوآرڈینیٹر، محمد میزان الرحمٰن کہتے ہیں ’کیمپ کبھی گھر نہیں بن سکتے۔ وہ ناامید اور مایوس ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کا خطرناک سفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے گذشتہ ایک سال میں انسانی سمگلنگ کے 12 معاملے درج کیے ہیں۔ ہم نے اس میں ملوث لوگوں کو بھی گرفتار کیا اور کچھ کشتیوں کو ضبط کیا، جو لوگوں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں۔‘
بنگلہ دیشی حکام اور اقوام متحدہ دونوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو خبردار کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں لیکن چونکہ زیادہ تر سفر خفیہ طور پر ہوتے ہیں، اس لیے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر جانے والے لوگوں کی نگرانی میں مشکلات کا شکار ہے۔
یو این ایچ سی آر کے پاس سمندر میں لوگوں کو تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں۔ کاکس بازار میں یو این ایچ سی آر کی کمیونیکیشن آفیسر ریجینا ڈی لا پورٹیلا کہتی ہیں کہ اگر ہمیں کسی بحری جہاز کے ڈوبنے کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے تو ہم اقوام متحدہ یا دیگر امدادی تنظیموں کو خبردار کر سکتے ہیں جو آس پاس موجود ہیں۔
ماضی میں، اقوام متحدہ نے سمندر میں مصیبت زدہ کشتیوں کے لیے کامیابی سے مدد جمع کی ہے۔ ایسی ہی ایک کشتی 100 سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کو لے کر بالآخر دسمبر میں سری لنکا پہنچی۔
ایک امید
کیمپ میں واپس آنے کے بعد شریفہ خاتون اب بھی الجھن کی حالت میں ہیں۔ وہ اپنے رہن سہن کے حالات سے خوش نہیں لیکن تین چھوٹے بچوں کے ساتھ انھوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
انھیں یقین نہیں کہ ان کی گمشدہ بہن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کوئی ان کی مدد کرے گا۔
وہ کہتی ہیں ’میں بہت اداس ہوں۔ مجھے ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ آخری بار میں نے ان سے 14 دسمبر کو بات کی تھی۔‘
’مجھے امید ہے کہ ایک دن میں اپنی بہن اور اس کے بچوں سے ملوں گی۔‘
ہم سے بات کرنے کے ایک گھنٹے بعد فضل احمد کو سمگلروں کا فون آتا ہے۔ وہ انتظار نہیں کریں گے۔ احمد اپنی جوتے بدلتے ہیں اور جب وہ پانی کے پاس جاتے ہیں تو جذباتی کیفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
وہ یہ کہتے ہوئے رو پڑے کہ ’میری بہنوں اور بھائیوں نے مجھ سے کہا کہ میں نہ جاؤں۔ میرے پاس یہاں کوئی کام نہیں۔‘
انھیں امید ہے کہ وہ مزدور کے طور پر کام حاصل کرلیں گے کیونکہ وہ پڑھے لکھے نہیں۔
’میں اپنے بہن بھائیوں کے لیے پیسے حاصل کرنے کے لیے ملائیشیا جا رہا ہوں۔ اس سے میرے بھائی بہن پڑھ سکیں گے۔‘
احمد جانتے ہیں کہ یہ کسی نہ کسی طرح سے زندگی بدلنے والا سفر ہوگا۔
وہ اندھیرے میں پانی سے گزرتے ہوئے اس کشتی کی طرف جاتے ہیں جس کے بارے میں انھیں امید ہے کہ وہ انھیں ایک روشن زندگی کی طرف لے جائے گی۔
Comments are closed.