روس کا اپنے ایٹمی ہتھیار بیلاروس میں نصب کرنے کا فیصلہ
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ روس اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے اتحادی ملک بیلاروس میں نصب کرے گا۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق صدر پوتن نے کہا کہ اس اقدام سے ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدروں کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ انھوں نے اپنے اس فیصلے کا موازنہ یورپ میں امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب سے کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول بیلاروس کے حوالے نہیں کرے گا۔
روس کے اس اعلان کے بعد امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا یقین ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی تیاری نہیں کر رہا۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے اپنی تیاری میں کوئی تبدیلی کریں۔‘
امریکہ کے محکمۂ دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نیٹو کے مشترکہ دفاع کی پالیسی پر کاربند رہیں گے۔‘
بیلاروس کی طویل سرحد یوکرین اور نیٹو کے رکن ممالک پولینڈ، لیتھوینیا اور لیٹویا سے ملتی ہے۔
یہ انیس سو نوے کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ملک سے باہر نصب کر رہا ہے۔
سنہ 1991 سے پہلے یہ ایٹمی ہتھیار روس، یوکرین، بیلاروس اور قازستان میں تھے جو سب سویت یونین کا حصہ تھے۔ لیکن سنہ 1991 میں سویت یونین کے ختم ہونے کے بعد یہ آزاد ممالک بن گئے۔ جس کے بعد ان ممالک میں نصب ایٹمی ہتھیاروں کو روس منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو سنہ 1996 میں مکمل ہوا۔
بیلاروس ماسکو کا قریبی اتحادی ہے اور یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کرتا ہے۔
صدر پوتن نے روس کے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس کے صدر ایلگزینڈر لوکاشینکو کا عرصے سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو بیلاروس میں نصب کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔
صدر پوتن نے کہا کہ ان کا فیصلہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔
’پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ یہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک میں اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کافی عرصے سے نصب کیے ہوئے ہیں۔‘
روس آئندہ ہفتے سے ایٹمی ہتھیاروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی تربیت کا آغاز کر رہا ہے۔ صدر پوتن نے بتایا کہ بیلاروس میں ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے کی جگہ کی تعمیر پہلی جولائی کو مکمل ہو جائے گی۔
ان ہتھیاروں کو جن میزائلوں کے ذریعے لانچ کیا جاتا ہے انھیں پہلے ہی بیلاروس منتقل کیا جا چکا ہے۔
Comments are closed.