افغانستان غیر ملکی فوجوں کا انخلا اور طالبان کی پیش رفت: روس افغانستان میں کیا چاہتا ہے؟
- بی بی سی
- مانیٹرنگ
ماہرین کی نظر میں روس افغانستان کے بارے میں غیر جانبداری کی پالیسی کو ترک کر کے طالبان کی حمایت پر آمادہ نظر آتا ہے
امریکی سربراہی میں قائم افغانستان میں فوجی اتحاد جب 20 برس بعد افغانستان سے نکل رہا ہے، روس کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔
روسی اہلکاروں اور روسی ذرائع ابلاغ میں ایک ایسی رائے ابھر کر سامنے آ رہی ہے کہ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال روس کے لیے کوئی اچھا موقع نہیں بلکہ ایک مسئلہ ہے۔
افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے روس کی اعلان کردہ پالیسی یہ ہے کہ اسے وسطی ایشیا میں اپنے اتحادی ممالک کو منفی اثرات سے بچانا ہے۔ اس کے علاوہ روس کے کیا ارادے ہیں یہ واضح نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حالیہ کامیابیوں کے بعد روس افغانستان میں غیر جانبداری کی پالیسی کو ترک کر کے طالبان کی حمایت پر آمادہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان کی کامیابی پر شرط لگا دی ہے؟
روس نے 2003 سے طالبان کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود روس 2019 کے بعد سے دو بار افغان ڈائیلاگ کی میزبانی کر چکا ہے جس میں طالبان کے علاوہ افغانستان کے دوسرے اپوزیشن گروہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان مذاکرات میں روس نے افغانستان کی موجودہ حکومت کو شرکت کی دعوت نہیں دی تھی۔
طالبان 2019 کے بعد دو بار ماسکو میں افغانستان کے بارے میں ہونے والی بات چیت میں شرکت کر چکے ہیں
روس نے کابل کی موجودہ حکومت کو صرف ایک بار افغانستان کے بارے میں ہونے والے ڈائیلاگ میں شرکت کی دعوت دی تھی جس میں ٹرائیکا پلس، یعنی امریکہ، چین اور پاکستان نے بھی شرکت کی تھی۔
مذاکرات سے پہلے افغانستان کے بارے میں روس کے چیف مذاکرات کار ضمیر کابلوف نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک پائیدار حکومت کے قیام کے لیے سمجھوتے پر رضامند ہو جائیں۔
لیکن افغانستان میں طالبان کی حالیہ کامیابیوں کے بعد روس نے افغان حکومت سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں اور حکام ایسی باتیں کر رہے ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ روس سمجھتا ہے کہ نیٹو افواج کی روانگی کے بعد اشرف غنی کی حکومت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں بنتا۔
افغانستان کے بارے میں روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال کا واحد حل افغانستان میں ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کا قیام ہے جس میں پشتون، تاجک اور ہزارہ برادریوں کی نمائندگی ہو۔
ضمیر کابلوف جو افغانستان کی موجودہ حکومت کو ایک ’کٹھ پتلی‘ حکومت کہہ کر پکارتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کی افغانستان کی حکومت میں افغانستان کی موجودہ حکومت کا کوئی کردار نہیں ہو گا کیونکہ طالبان ان کے ساتھ بات بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
طالبان معتدل ہو چکے ہیں، کوئی خطرہ نہیں
افغانستان کے بارے روس کے خصوصی نمائندے کہہ چکے ہیں کہ طالبان وقت گزرنے کے ساتھ معتدل ہو چکے ہیں اور وہ ایک ’قابل سیاسی قوت‘ ہیں جو ’طاقت کے صحیح دعویدار‘ ہیں۔
ضمبیر کابلوف نے کہا ’طالبان دہشتگرد تھے اور ان میں کچھ اب بھی ملکی سطح پر دہشتگردی میں ملوث ہیں لیکن وہ ہمارے علاقائی مفادات اور سنٹرل ایشیا میں ہمارے اتحادیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔‘
روس کے خصوصی نمائندے کے مطابق وسیع ٹرائیکا (روس، چین، امریکہ، پاکستان) طالبان کو اسلامی امارات کے منصوبوں کے حوالے سے اپنے لب و لہجے میں نرمی لانے میں کامیاب ہوا ہے۔
روس کے خصوصی نمائندے کے علاوہ بھی دوسرے روسی اہلکار بھی طالبان کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
سابق رشین یونین آف افغانستان کے ڈپٹی چیئرمین ولادیمیر کوشلوف نے روسیا 24 چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ’وہ (طالبان) ایسے افراد کا تاثر دے رہے ہیں جو افغانستان کے منشیات کے مسئلے پر قابو پا لیں گے۔‘
ولادیمیر کوشلوف نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار کو روکنے کی کوشش نہیں کی جس سے ’ہزاروں روسی شہری‘ ہر سال مر رہے ہیں۔
براہ راست روسی مداخلت بعید از قیاس
امریکی اتحاد کے افغانستان چھوڑنے کے بعد روس کی بڑی تشویش افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں کو اپنے اتحادیوں کی دہلیز تک پہنچنے سے روکنا ہے۔
روس تاجکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان میں ملوث ہونے پر مجبور ہو سکتا ہے
کرملین کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس افغانستان میں فوجیں بھیجنے کے حوالے سے افغانستان کی حکومت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کر رہا ہے۔ البتہ ماسکو نے افغانستان کے پڑوسی ممالک، ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھا دیا ہے۔
صدر پوتن نے پانچ جولائی کو ازبکستان اور تاجکستان کے رہنماؤں سے فون پر بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد روس کے وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے کہا کہ روس تاجکستان اور ازبکستان میں کسی قسم کی جارحانہ مداخلت کو روکنے کے لیے فوجی طاقت سمیت ہر قدم اٹھائے گا۔
سات جولائی کو روس نے اعلان کیا کہ وہ رواں برس تاجکستان میں اپنے فوجی اڈے 201 پر ایک ہزار تاجک فوجیوں کی تربیت کرے گا۔
ماہرین ابھی تک براہ راست روسی مداخلت کے امکان کو رد کر رہے ہیں۔
فوجی تجزیہ کار وکٹر مراخوسکوی نے اخبار ویدوموستی کو بتایا کہ تاجکستان کو روسی فوجی امداد ٹرانسپورٹ جہازوں اور اسلحے کی فراہمی تک ہی محدود ہو گی۔
اسی طرح کے خیالات کا اظہار ماسکو کی ہائیر سکول آف اکنامکس کے آندرے کزنتسوف نے بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس کے فوجی دستوں کی علاقے میں تعیناتی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آندرے کزنتسوف نے نیوز ویب سائٹ گزیٹا ڈاٹ آر یو کو بتایا کہ تاجکستان اور ازبکستان میں روسی اڈوں کو افغانستان میں کسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اسلامک سٹیٹ کے خطرات
ماسکو کو طالبان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا لیکن انھیں شدت پسند گروہ اسلامک سٹیٹ کے ممبران خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
روس کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی مکمل کامیابی سے اسلامک سٹیٹ جیسی تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں
ماہر ارکادے دبنوف کا کہنا ہے کہ روس کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان شمالی افغانستان کے علاقوں میں بغیر کسی روک ٹوک کے تسلط قائم کرتے گئے تو وہاں سے القاعدہ، آئی ایس، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور شمالی روس کے کوہ قاف خطوں سے تعلق رکھنے والے شدت پسند تاجکستان، ازبکستان میں آ سکتے ہیں اور وہاں اپنے سلیپر سیل بنا سکتے ہیں۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
موقع یا خطرہ؟
ماہر سٹینسلوف تارسوف کے خیال میں افغانستان سےامریکی انخلا کے بعد بیرونی طاقتوں کے لیے افغانستان میں عالمی سیاست کے حوالے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔
افغانستان کے ماہر آندرے سیرنکو کا خیال ہے کہ روس تاجکستان جیسے ممالک کی مدد کر کے انٹرنیشنل سکیورٹی بلاک میں اپنی شہرت کو بحال کر سکتا ہے۔
لیکن روسی اہلکاروں اور ذرائع ابلاغ میں افغانستان میں صورتحال کے حوالے سے موڈ خوشی کا نہیں بلکہ غمگین ہے۔
صدر پوتن کے ترجمان پیسکوف نے کہا کہ روس کو خطے میں عدم استحکام پر تشویش ہے۔
روس کی ایک ممتاز ٹی وی شخصیت دمتری کسلوف کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ انھوں نے رشیا ون ٹی وی کے پروگرام ویسٹی نیدلی(نیوز آف دی ویک) میں کہا: ” وہاں جنگ بلکل ختم نہیں ہوئی ہے۔ مستقبل میں یہ اور تیز ہو گی۔”
انھوں نے مزید کہا کہ اب خطے میں دہشتگردی کے مرض کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور اس کا مطلب یہ ہے یہ اب روس کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔”
روس کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی مکمل کامیابی سے کوہ قاف خطوں کے شدت پسند تاجکستان اور ازبکستان میں قدم جما سکتے ہیں
روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں ہمیشہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کو ناپسند کیا جاتا تھا لیکن اب آزاد تجزیہ کار یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی روس کے مفاد میں تھی۔
پولیٹکل سائنسدان ولادیمیر پستوکوف کے مطابق افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس کے حوالے سے روس کی یادیں خوشگوار نہیں ہیں اور اس کی کوشش ہو گی کہ وہ اس بار وہاں مداخلت سے باز رہے۔
البتہ انھوں نے تسلیم کیا کہ تاجکستان کے ساتھ اپنے دفاعی معاہدے کی وجہ سے روس کو شاید نہ چاہتے ہوئے بھی مداخلت کرنی پڑی۔
ٹیلگرام کے ایک مشہور اکاونٹ سرپومو پو (SerpomPo) نے کہا کہ اب روس کو افغانستان میں طاقت کے مختلف مراکز پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا جن کی وہ ہمیشہ امریکہ کے متبادل کے طور پر وکالت کرتا رہا ہے۔ جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب ہے انتشار اور اسلام پسندوں کا اقتدار پر قبضہ۔
Comments are closed.