روس، یوکرین کشیدگی پاکستان میں گندم کی درآمد کو کس حد تک متاثر کر سکتی ہے؟
- تنویر ملک
- صحافی، کراچی
روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے جہاں عالمی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو اس کے ساتھ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے مستقبل کے حوالے سے چند خدشات نے جنم لیا ہے۔
روس اور یوکرین دنیا میں گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہیں۔ دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں دونوں کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہے۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔
پاکستان اپنی گندم کی ضروریات جہاں اس کی مقامی پیداوار سے کرتا ہے تو اس کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان نے گذشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے آیا تھا۔ روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کے ساتھ ساتھ گندم کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان میں گندم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی اور اس کی وجہ سے ممکنہ طور پر کسی جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں گندم سپلائی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس کے کچھ منفی اثرات پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں گندم کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جن میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور گندم درآمد کرنے والے ممالک کو اب پہلے سے زیادہ نرخوں پر یہ جنس عالمی مارکیٹ سے دستیاب ہے۔
اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں دس سال کی بلند سطح پر موجود ہیں جن میں اجناس کی عالمی قیمتوں میں ہونے والے رجحان کے ساتھ روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی نے مزید اضافہ کیا ہے۔
پاکستان میں گندم کی دستیابی کی کیا صورتحال ہے؟
پاکستان میں گندم ملک کے قابل کاشت رقبے کے 37 فیصد حصے پر ہوتی ہے اور پاکستان میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل گندم ہی ہے۔
تاہم اس کے باوجود ملک گذشتہ کئی برسوں سے گندم میں خود کفیل نہیں ہو سکا اور مقامی پیداوار کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم منگوا کر کے ملکی ضرورت کو پورا کرنا پڑتا ہے۔
گذشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان میں گندم کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ برس دور کروڑ نوے لاکھ ٹن کے لگ بھگ گندم کی پیداوار ہوئی تھی تاہم پاکستان کو ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیس لاکھ ٹن سے زائد گندم درآمد کرنی پڑی۔
وفاقی حکومت نے اس سال سیزن کے لیے تین کروڑ ٹن پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے۔
پاکستان میں محمکہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مالی سال میں تقریباً ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کی گئی تھی اور گندم کی درآمد کا سلسلہ اس سال بھی جاری ہے اور اس سال کے پہلے سات ماہ میں 67 کروڑ ڈالر کی گندم ابھی تک ملک میں درآمد کی جا چکی ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کی گندم ریویو کمیٹی کی جانب سے تمام صوبوں کو گندم کی پیداوار کے اہداف پورا کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ تاہم اجناس کے ماہر شمس الاسلام نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ملک میں کھاد کے بحران نے گندم کی فصل کو متاثر کیا ہے اور اس وجہ سے بیرون ملک سے مزید گندم منگوانا پڑے گی۔
مگر آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق صدر چوہدری عنصر مجید پُرامید ہیں کہ اس سیزن میں گندم کا ہدف پورا کر لیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ کھاد کے بحران نے گندم کی فصل کو اس لیے متاثر نہیں کیا کیونکہ وقت پر ہونے والی بارشوں نے فصل کو بہت سپورٹ کیا۔ انھوں نے کہا ہے کہ سندھ میں 15 دن میں فصل کی کٹائی شروع ہو جائے گی اور اچھی فصل کی امید ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک میں گندم کی قیمت 59 روپے فی کلو ہے۔
چوہدری عنصر نے کہا کہ اس وقت مل چکی آٹے کی قیمت 68 روپے فی کلو جب کہ فائن آٹا 70 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ چھوٹی چکیوں کا آٹا قیمت میں لگ بھگ دس روپے زیادہ ہوتا ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کس قیمت پر دستیاب ہے؟
دنیا میں گندم کی پیداوار کے بڑے ملکوں میں روس اور یوکرین شامل ہیں اور دنیا میں برآمد کی جانے والی گندم کا دو تہائی فیصد ان ملکوں سے عالمی منڈی میں پہنچتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے گذشتہ کئی ہفتوں سے گندم کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ شمس الاسلام نے بتایا کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت فیوچر ٹریڈ میں 365 ڈالر فی ٹن کے حساب سے دستیاب ہے جو ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
شمس الاسلام نے بتایا کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
روس اور یوکرین کے تنازع کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں گندم کی فیوچر ٹریڈ 8.30 ڈالر اس کشیدگی کے پیدا سے ہونے سے پہلے کی سطح سے لے کر اب تک بڑھ چکی ہے۔
عارف حبیب کموڈیٹیز کے چیف ایگزیکٹیو احسن محنتی نے کہا کہ روس اور یوکرین کے تنازع میں کمی سے عالمی مارکیٹ میں بھی مثبت اثر پڑے گا اور عالمی سطح پر گندم کی بڑھی ہوئی قیمت میں کچھ فرق نظر آئے گا۔
پاکستان اس تنازع میں شدت سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی گندم کی ضرورت کے لیے درآمدی گندم پر انحصار کرتا ہے۔
محکمہ شماریات کے مطابق پاکستان نے کچھ مالی سال میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کی تھی اور ستر کروڑ ڈالر کے قریب اب تک اس مالی سال میں درآمد کر چکا ہے۔ اس کے مطابق اس درآمدی گندم کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے درآمد کی جانے والی گندم پر مشتمل ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی وجہ سے جہاں دنیا میں گندم کی سپلائی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وہیں پاکستان کو بھی گندم درآمد کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر فی الحال پاکستان گندم درآمد نہ بھی کرے اور تنازع برقرار رہتا ہے تو اس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ بہت دیر تک غیر یقینی صورتحال کا شکار رہ سکتی ہے۔
اگرچہ احسن محنتی نے اس بارے میں امید کا اظہار کیا کہ کشیدگی میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور دنیا کی طرح پاکستان میں بھی گندم کی سپلائی متاثر نہیں ہو گی۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اگر روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی جنگ کی صورت میں نکلتی ہے تو جہاں عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں 25 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح گندم کی قیمتیں بھی 25 فیصد بڑھ سکتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ گندم درآمد کرنے والے ملکوں بشمول پاکستان کے لیے گندم مہنگی ہو سکتی ہے۔
تاہم چوہدری عنصر مجید اس صورتحال سے ملک کے متاثر ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سیزن میں ملک میں گندم کی پیداوار اتنی ہو گی کہ پاکستان کو درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
انھوں نے کہا کچھ ہفتوں میں مارکیٹ میں نئی فصل آنا شروع ہو جائے گی اور جس کی وجہ سے قیمت میں بھی استحکام آئے گا اور سپلائی کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔
تاہم ماہرِ اجناس شمس الاسلام کے مطابق مقامی پیداوار کے باوجود ملک میں گندم کی کمی ہو گی جس کے لیے درآمدی گندم پر جانا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ کئی ہفتوں سے کشیدگی کی وجہ سے عالمی سطح پر گندم کی قیمتیں بڑھی ہیں اور پاکستان کو مستقبل میں مزید گندم درآمد کرنے کے لیے عالمی منڈی میں جانا پڑے گا جہاں روس اور یوکرین کے درمیان کسی جنگ کی صورت میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں گندم کی ضرورت صرف مقامی افراد کے لیے نہیں ہے بلکہ پاکستان سے گندم افغانستان بھی جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں فی کس گندم کا استعمال پاکستان سے زیادہ ہے اور اس ضرورت کو پاکستان سے بھیجی جانے والی گندم سے پورا کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.