روس، یوکرین کشیدگی: نیٹو کیا ہے اور روس اس پر اعتبار کیوں نہیں کرتا؟
نیٹو ممالک اس بات پر غوروفکر کر رہے ہیں کہ ممکنہ روسی حملے کے پیش نظر انھیں کس حد تک یوکرین کی مدد کرنی چاہیے۔
یہ اتحاد جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، یوکرین کے لیے اپنی فوجی تیاری اور امداد کو بڑھا رہا ہے۔
نیٹو کیا ہے؟
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی تشکیل سنہ 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔
امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنائے گئے اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔
جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور سنہ 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف سٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔
شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔
سنہ 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔
سنہ 1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ سنہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔
سنہ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔
نیٹو اور یوکرین کے ساتھ روس کا موجودہ مسئلہ کیا ہے؟
یوکرین سابقہ سوویت کا ایک حصہ ہے جس کی سرحد روس اور یورپی یونین دونوں سے ملتی ہے۔
یہ نیٹو کا رکن ملک نہیں لیکن اس کا ’شراکت دار ملک‘ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کو مستقبل میں کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔
روس مغربی طاقتوں سے اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا لیکن مغرب اس کے لیے تیار نہیں۔
یوکرین میں رہنے والے روسی باشندوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور روس سے قریبی سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ کریملن یوکرین کو اپنے قریبی علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔
روس کو اس کے علاوہ کیا تشویش ہے؟
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں اس اتحاد کو روس کو گھیرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔
وہ ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور ڈالتے آئے ہیں کہ امریکہ نے 1990 میں دی گئی اپنی اس ضمانت کو ختم کر دیا، جس کے مطابق نیٹو اتحاد مشرق میں نہیں پھیلے گا۔
نیٹو روس کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے رکن ممالک کی ایک بہت چھوٹی تعداد کی روس کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں اور یہ ایک دفاعی اتحاد ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوجیوں کی موجودہ تشکیل مغرب کو روس کے سکیورٹی مطالبات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
نیٹو نے ماضی میں روس اور یوکرین کے بارے میں کیا کیا؟
سنہ 2014 کے ابتدا میں جب یوکرین نے اپنے روس نواز صدر کو معزول کر دیا تو روس نے یوکرین کے جنوبی جزیرہ نما کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس نے روس نواز علیحدگی پسندوں کی بھی حمایت کی جنھوں نے مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔
نیٹو نے اس میں مداخلت نہیں کی لیکن اس نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں فوجیں بلا کر روس کے اس اقدام کا جواب دیا۔
ایسٹونیا، لٹویا، لتھونیا اور پولینڈ میں اس اتحاد کے چار ملٹی نیشنل جنگی گروپ جبکہ رومانیہ میں ایک ملٹی نیشنل بریگیڈ موجود ہے۔
نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا تاکہ رکن ممالک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی روسی طیارے کو روکا جا سکے۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ ان علاقوں سے ان افواج کا انخلا چاہتا ہے۔
نیٹو کے یوکرین کے ساتھ کیا وعدے ہیں؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ روس کو حملہ کرنے کی ’سنگین قیمت‘ ادا کرنا پڑے گی۔
امریکہ نے لڑائی کے لیے تیار 8500 فوجیوں کو فوری تعیناتی کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے لیکن امریکہ وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ان فوجیوں کو اسی صورت میں بھیجا جائے گا اگر نیٹو بھی اپنے فوری طور پر تعینات کیے جانے والے ریپڈ ریسپانس دستوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین میں ہی فوجیوں کو تعینات کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے خبردار کیا ہے کہ مزید فوجی کشیدگی کی صورت میں ’روسی حکومت کو اقتصادی اور سیاسی طور پر بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘
ڈاؤننگ سٹریٹ نے کہا ہے کہ برطانیہ اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ’اتحادیوں کو پابندیوں سمیت فوری طور پر جوابی ردعمل کا نفاذ کرنا چاہیے۔‘
کیا نیٹو یوکرین پر متحد ہے؟
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یوکرین پر یورپی رہنماؤں کے ساتھ ’مکمل اتفاق‘ ہے لیکن مختلف ممالک کی جانب سے پیش کردہ حمایت میں اختلافات موجود ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے ’فرنٹ لائن پر لڑنے والوں‘ کے لیے تقریباً 90 ٹن کی ’مہلک امداد‘ بھیجی ہے جس میں گولہ بارود بھی شامل ہے جبکہ برطانیہ یوکرین کو کم فاصلے تک مار کرنے والے ٹینک شکن میزائل فراہم کر رہا ہے۔
نیٹو کے کچھ ارکان، جن میں ڈنمارک، سپین، فرانس اور نیدرلینڈز شامل ہیں، مشرقی یورپ میں لڑاکا طیارے اور جنگی جہاز بھیج رہے ہیں تاکہ خطے میں دفاع کو مضبوط کیا جا سکے تاہم جرمنی نے یوکرین کی جانب سے دفاعی ہتھیاروں کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
جرمنی کی پالیسی کے مطابق وہ تنازعات والے علاقوں میں مہلک ہتھیار کے بجائے طبی امداد بھیجے گا۔
دوسری جانب فرانس کے صدر میکرون کشیدگی کو کم کرنے کے لیے روس سے بات چیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Comments are closed.