سڑکوں اور راستوں کی بندش پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے راستے بند کرنے کے عمل کو شیطانی قرار دیا ہے۔
اسلام آباد سے جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے سڑکوں کی بندش سے بنیادی حقوق کی پامالی پر فیصلے دیے ہیں، جن میں واضح ہے کہ اجازت کے بغیر سڑکوں پر اجتماعات نہیں ہو سکتے، دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر کر کے آزادیٔ اظہار کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا، سڑک کو غیر معینہ مدت تک جمع ہونے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو مظاہرین لوگوں کے سڑکیں استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالیں ان کو قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرانا لازمی ہے، ریاست کی صرف یہ ذمے داری نہیں کہ وہ مظاہرین کے اجتماع کو آسان بنائے، آئینی اور سرکاری عہدے داروں کا تحفظ کرے، ریاست کی اولین اور بنیادی ذمے داری ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
انہوں نے کہا کہ تکریم اور نقل و حرکت کی آزادی ہر شہری کے بنیادی آئینی حقوق ہیں، 8 نومبر کی صبح عدالت جا رہا تھا تو تمام ٹریفک روکا گیا، دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ صدر صاحب کے لیے روٹ لگایا گیا ہے، سیکڑوں گاڑیاں روکی گئی تھیں جن میں ہزاروں افراد تھے، صبح کے وقت لوگ اسپتال یا ضروری کاموں کے لیے جا رہے ہوں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے، آئینِ پاکستان میں سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کی حکمرانی کا اقرار کیا جاتا ہے، قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ ہماری ریاست ہونے کا مطلب یہ ہے جس میں ہم آزاد لوگوں کی طرح جی سکیں، ایسی ریاست جہاں اسلامی سماجی عدل کے اصولوں پر آزادی سے عمل ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ سے شام کو معمول کے مطابق پیدل گھر کی طرف روانہ ہوا، درجن بھر سرکاری ملازمین احتجاج کر رہے تھے، سڑک بند کر دی گئی تھی، سڑک کی دوسری جانب دو طرفہ بنا دیا گیا تھا، جس پر سرکاری نمبر والی گاڑیوں کی اکثریت تھیں، گاڑیاں دونوں اطراف پیلی لکیروں پر پارک کی گئی تھیں جہاں پارکنگ ممنوع ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے بتایا کہ شہری کی حیثیت سے موقع پر موجود ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی سی سے دریافت کیا، پوچھا انہوں نے اپنی اور دوسروں کی گاڑیوں کو غیر قانونی طور پر کیوں پارک کیا ہے؟ غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے عوام الناس کی نقل و حرکت میں مزید دشواری پیش آ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سڑکوں کی بندش سے شہریوں کا حقِ نقل و حرکت معطل ہو جاتا ہے، گالی، دھمکی دینے سے باعزت زندگی کا حق آرٹیکل 14 بے معنی ہو جاتا ہے، املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو آرٹیکل 18اور 23 کا نفاذ لازم ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اجازت کے بغیر سڑکوں پر اجتماعات نہیں ہو سکتے، سڑک کو غیر معینہ مدت تک جمع ہونے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، شہریوں اور سیاسی جماعت کو اجتماع و احتجاج کا حق ہے، مگر یہ سب پرامن اور قانونی حدود میں ہو۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جو مظاہرین لوگوں کے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالیں ان کو قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرانا لازمی ہے، آئینِ پاکستان شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بناتا ہے، آرٹیکل 5 کے تحت ہر شہری پر آئین اور قانون پر عمل کرنے کی ذمے داری عائد کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کی اولین اور بنیادی ذمے داری ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے، ملک شہریوں کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ٹیکس کی رقم سے چلتا ہے، قرآن مجید کی آیت ہے کہ ’’رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی اور انکساری سے چلتے ہیں‘‘۔
Comments are closed.